Wednesday, July 17, 2013

zara ye soch teri roshani se aagay hai

ذرا یہ سوچ، تری روشنی سے آگے ہے
 مرا خیال مری شاعری سے آگے ہے

جو دل کو لگتی ہے شاید وہی محبت ہے
 یہ وہ خلش ہے جو ہر دل لگی سے آگے ہے

وہی تو ہے کہ جو بے ساختہ کہا اس نے
جو لفظ لفظ میں شیشہ گری سے آگے ہے  

عجیب جادوگری ہے سخن وری میری
 مگر یہ پھر بھی کہیں بے بسی سے آگے ہے

مغالطہ بھی نہیں ہے، مبالغہ بھی نہیں
کہ میرا فکرِ سخن خامشی سے آگے ہے  

کسی کے غم میں برابر شریک رہتا ہوں
خوشی کسی کی مجھے سرخوشی سے آگے ہے  

یہ کائنات بنائی گئی ہے میرے لیے
مگر جو سعدؔ مری آگہی سے آگے ہے
!

Loog khanda ba lub hain raazon par

لوگ خندہ بہ لب ہیں رازوں پر
کچھ تو لکھا ہوا ہے چہروں پر

تُو ستارہ شناس ہے تو بتا
کچھ ستارے ہیں میری پلکوں پر

میرے دامن میں ایک چاند بھی ہے
ایک تہمت ہے یہ بھی آنکھوں پر

تُو تو پامال کرتا جاتا ہے
دیکھ کیا کچھ پڑا ہے رستوں پر

میری رگ رگ میں برق دوڑتی ہے
لمس کس کا ہے دل کے تاروں پر

خود ہی بنتی بگڑتی رہتی ہیں
کچھ لکیریں ہیں میرے ہاتھوں پر

سعدؔ روتا تو ہو گا راتوں کو
وہ جو ہنستا ہے میری باتوں پر

Aab tak wohi khayal tumhara hai aur bas

اب تک وہی خیال تمہارا ہے اور بس
 لگتا ہے یہ بھی سال تمہارا ہے اور بس 

صد حیف کیا گماں تھا ہمیں کارِ عشق میں
 یعنی کہ ہم سا حال تمہارا ہے اور بس 

ہم بھی کشاں کشاں جو چلے آ رہے ہیں یوں
 اس میں فقط کمال تمہارا ہے اور بس 

ہم جو اُداس ہوتے ہیں رہ رہ کے اس طرح
یعنی ذرا ملال تمہارا ہے اور بس 

بے وجہ تو نہیں ہیں پریشانیاں مری
پیشِ نظر زوال تمہارا ہے اور بس 

زیبائشِ سخن ہے مرے حرف حرف سے
معجز نما جمال تمہارا ہے اور بس 

کیا پوچھتے ہو حالِ دلِ سعدؔ ہم سے تم
اک نقش خال خال تمہارا ہے اور بس
٭٭٭

Apni sochon k taqub main kahan tak jate

اپنی سوچوں کے تعاقب میں کہاں تک جاتے
روشنی بن کے نکلتے تو وہاں تک جاتے

ایسے لگتا ہے نشانے پہ ہے اپنی قسمت
ورنہ سب تیر مسلسل نہ کماں تک جاتے

ہم نے اچھا کیا لوٹ آئے وگرنہ ہم لوگ
فاصلے اور بڑھا آتے جہاں تک جاتے

تیری صورت پہ کھلا مطلعِ انوارِ فسوں
ہم بھٹک جاتے اگر وہم و گماں تک جاتے

گر ہمیں خوف نہ ہوتا تری رسوائی کا
عین ممکن تھا کہ ہم آہ و فغاں تک جاتے

سعدؔ اپنی تو طبیعت ہی انوکھی تھی بہت
ورنہ ہم لوگ نہ ایسے ہی زیاں تک جاتے

Humare dar se shab-e-mah sogawaar gayi

ہمارے در سے شبِ ماہ سوگوار گئی
اور اپنی آنکھ سے ویرانیاں گزار گئی

وہ ایک ساعتِ حیراں کہ پتلیوں پر ہے
وہ اک نظر کہ جو سینے کے آر پار گئی

میں اپنے آپ سے ناراض ہوں یقیں جانو
کہ اس کے سامنے جیسے اَنا بھی ہار گئی

جسے میں دستِ تخیل پہ لے کے اڑتا تھا
وہ خاکِ رہ مجھے پاتال میں اتار گئی

کسی بھی وہم کو دل میں جگہ نہ دینا دوست
خزاں جو ذہن میں آئی تو پھر بہار گئی

اب اس قدر بھی گیا گزرا میں نہیں ہوں سعد ؔ
مجھے تو جیسے محبت کسی کی مار گئی

aik dariya hai meri aankh ki deewaar k saath

ایک دریا ہے مری آنکھ کی دیوار کے ساتھ
روز ملتا ہے مجھے وحشت و یلغار کے ساتھ

ہم کو رُکنا ہے کئی بار اُدھر دیکھنے کو
کیسے چل پائے کوئی وقت کی رفتار کے ساتھ

کوئی نقطے سے لگاتا چلا جاتا ہے فقط
دائرے کھینچتا جاتا ہوں میں پرکار کے ساتھ

یاد آتی ہیں کبھی بھولی ہوئی باتیں بھی
ایک اقرار کسی کا کسی انکار کے ساتھ

رنگ و رامش ہی پہ موقوف نہیں ہے سب کچھ
ہم کو رکھو نہ اسیرِ لب و رخسار کے ساتھ

کس کو معلوم، یہی روگ بنے گا اک دن
کتنے خوش باش ہیں کچھ لوگ غمِ یار کے ساتھ

صرف اور صرف محبت کا بیاں ایسا ہے
لطف کچھ اور بھی دیتا ہے جو تکرار کے ساتھ

سعدؔ وہ عام سا اک شخص ہے اور کچھ بھی نہیں
تم تو بس مارے گئے عشق کے اظہار کے ساتھ

Khud apni hud se nikal ker hadood dhoondti hai

خود اپنی حد سے نکل کر حدود ڈھونڈتی ہے
کہ خاک بارِ دِگر بھی قیود ڈھونڈتی ہے

ہوائے تُند بڑھاتی ہے خود چراغ کی لو
کہ روشنی میں یہ اپنا وجود ڈھونڈتی ہے

ابھی ستارہ سا چمکا تھا میری پلکوں پر
کوئی تو شے ہے جو بود و نبود ڈھونڈتی ہے

بہار ہو کہ خزاں، کچھ نہیں ہے میرے بغیر
یہ کائنات بھی شاید شہود ڈھونڈتی ہے

یہ میرے شعر نہیں ہیں ترا سراپا ہے
کہ خوبصورتی اپنی نمود ڈھونڈتی ہے

یہی تو ہے المیّہ کہ رات دن دنیا
زیاں بدست ہر اک شے میں سود ڈھونڈتی ہے

بکھیر دے جو مری خاک کو ہر اک جانب
ہوائے روح اک ایسا سرود ڈھونڈتی ہے

خودی کو سعدؔ کسی مرتبے پہ لا کہ جہاں
ادائے ناز قیام و قعود ڈھونڈتی ہے

Shaam firaaq ne humko udaas kar diya

شامِ فراقِ یار نے ہم کو اداس کر دیا
بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا

خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر
ہم نے تو حرف حرف کو حرفِ سپاس کر دیا

کب تھے زمانہ ساز ہم، کب تھے کسی کا راز ہم
ہم کو ادائے شہر نے، شہر شناس کر دیا

اے کہ ہوائے تُندخُو! اور بڑھا دیے کی لو
غم نے تو آہِ سرد کو اپنی اساس کر دیا

اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس
جیسے ہمیں بھی یار نے پھولوں کی باس کر دیا

کیسی عجیب بات ہے اس کی نگاہِ ناز نے
ہم کو بدل کے رکھ دیا، عام سے خاص۱ کر دیا

کیا ہے طلسمِ حرف و صوت! اُس نے تو جنبشِ لب سے ہی
دل کو نہال کر دیا، زیست کو آس کر دیا

دیکھ لی حسن کے سامنے ہم نے بھی عشق کی بے بسی
وقت نے پیکرِ عشق پر غم کو لباس کر دیا

Aaj bhi mera nahi aur mera kal bhi nahi

آج بھی میرا نہیں اور مرا کل بھی نہیں
سچ تو یہ ہے کہ مرے ہاتھ میں اک پل بھی نہیں

وہ کہ تسلیم تو کرتا ہے محبت میری
میں ادھورا بھی نہیں اور مکمل بھی نہیں

کیسی دانائی کہ مر جانا کسی کی خاطر
میرے جیسا کوئی اس دنیا میں پاگل بھی نہیں

کیا غضب ہے کہ وہ پھر بھی ہے قیامت آسا
رُخ پہ غازہ بھی نہیں آنکھ میں کاجل بھی نہیں

کیا خبر کون سے موسم میں پڑا ہوں اب کے
دل میں صحرا بھی نہیں آنکھ میں بادل بھی نہیں

وہ جو دیتا ہے مجھے غیب سے یوں رزقِ سخن
مجھ پہ ظاہر تو نہیں ہے مگر اوجھل بھی نہیں

جانے یہ کیسا سفر ہے کہ چلے جاتے ہیں
آنکھ کھلتی نہیں اور ہاتھ میں مشعل بھی نہیں

دوست! کس بات پہ موقوف ہے اب تیرا سفر
پاؤں زخمی بھی نہیں جسم ترا شل بھی نہیں

سعدؔ اب دل کو سنبھالیں کہ کوئی کام کریں
مسئلہ وہ ہے کہ اب جس کا کوئی حل بھی نہیں

Apna anjaam howa jata hai

اپنا انجام ہوا جاتا ہے
عشق ناکام ہوا جاتا ہے  

اِنحطاط آیا ہے اک اک شے پر
درد اب عام ہوا جاتا ہے

اپنا جینا بھی ہے سازش کوئی
دانہ و دام ہوا جاتا ہے

ایک ہی شخص ہے وہ کہنے کو
شہر بدنام ہوا جاتا ہے

آؤ نفرت کریں اک دوجے سے
پیار الزام ہوا جاتا ہے

سورج اُترا ہے مری آنکھوں میں
مطلعِ شام ہوا جاتا ہے

سعدؔ خاموش سا رہنا اس کا
اب تو پیغام ہوا جاتا ہے
٭٭٭

Tu ne jab se nazar-andaaz kiya hai mujhko

تُو


تُو نے جب سے نظر انداز کیا ہے مجھ کو
اجنبیت سی مرے چاروں طرف چھائی ہے
اور محسوس یہ ہوتا ہے کہ میں تنہا ہوں
سانس لیتا ہوں تو خوشبو سی تری آتی ہے
ایسے لگتا ہے کہ احساس کے اندر تُو ہے
کیا تماشا ہے کہ میں پھر بھی تجھے چاہتا ہوں
جبکہ خواہش بھی نہیں مجھ کو تجھے دیکھنے کی
تُو تخیل ہے مرا اور مرے بس میں نہیں
٭٭٭

aik ahsaas mere daman-e-adraak mein hai

ایک احساس مرے دامنِ ادراک میں ہے
 وہی سینے میں ہے پنہاں کہ جو افلاک میں ہے

ایک خوشبو سے معطر ہے مشامِ جاں بھی
ایک ٹھنڈک سی مرے دیدۂ نمناک میں ہے

محوِ پرواز ہوں میں سوئے فلک صدیوں سے
آسمانوں میں کشش ہے کہ مری خاک میں ہے

ڈرتا رہتا ہوں ہویدا ہی نہ ہو جائے کہیں
ایک بے تاب سا شعلہ خس و خاشاک میں ہے

دیدۂ خوش پہ اٹھائے ہوئے کچھ شبنمی خواب
بادِ خوشبوئے گلِ خاص مری تاک میں ہے

حسرت و یاس ہر اک گام گلو گیر سہی
مگر اک لطفِ اَنا فطرتِ چالاک میں ہے

ہے کہیں ناخنِ تدبیر پہ بھی ایک خلش
ایک الجھی سی گرہ رشتۂ پیچاک میں ہے

دیکھ اے سعدؔ کہیں راز نہ ہو جائے عیاں
ان دنوں تیرا جنوں عرصۂ بے باک میں ہے

Dil ki dharkan bhi hai wabasta tere lehjay se

دل کی دھڑکن بھی ہے وابستہ ترے لہجے سے
بات کرتے ہوئے رہتے ہیں جو ہم سہمے سے

کیا کریں پاؤں ہی اپنے نہ اگر بس میں رہیں
ہم کہ پلٹے ہیں کئی بار ترے رستے سے

بھیگتی آنکھ میں جمتا ہی نہیں نقش کوئی
اشک اٹھاتے ہیں خد و خال ترے چہرے سے

عشق پل بھر میں بدل دیتا ہے دنیا دل کی
اب نہ ہم ہیں نہ شب و روز رہے پہلے سے

جب کوئی رنگ ہی بھرنے نہیں دیتا اُن میں
کیوں بناتے ہی چلے جاتے ہیں ہم خاکے سے

کیا کریں آنکھ میں منظر ہی نہ بن پایا کوئی
خواب تو سب نے دکھائے تھے بہت اچھے سے

ہم سے انہونی کوئی ہو کے رہے گی اک دن
تیری تصویر اٹھائیں گے کسی شیشے سے

کارِ لاحاصلیِ شوق اسے کہتے ہیں
خود کو وابستہ نہ کر پائے کسی لمحے سے

Wo hai baarish to main samandar hoon

وہ ہے بارش تو میں سمندر ہوں

کاش بارش برستی مجھ پر بھی
میں دکھاتا اسے ہنر کیا ہے
مجھ پہ آتا ہے جو ثمر کیا ہے
سیپ کیا چیز ہے، گہر کیا ہے
کاش بارش برستی مجھ پر بھی
میری ہستی کو کرتی جل تھل وہ
میرے اندر اترتی پل پل وہ
مجھ کو کچھ تو دکھاتی چھل بل وہ
کاش بارش برستی مجھ پر بھی
کاش چھینٹے اڑاتی میرے وہ
کاش بادل بناتی میرے وہ
مجھ کو صحرا میں لے کے جاتی وہ
کاش بارش برستی مجھ پر بھی
٭٭٭

Behte paani mein phool

بہتے پانی میں پھول


اسے بہتا ہوا پانی اچھا لگتا ہے
بس اسی لیے
میں بہتے ہوئے پانی میں پھول پھینکتا رہتا ہوں
یہ بات اسے اور بھی اچھی لگتی ہے
تیرتے ہوئے یہ پھول
انجانی منزل کی طرف چلے جاتے ہیں۔۔۔
بالکل ہماری طرح۔۔۔
مگر پانی پر پھولوں کے تیرنے کا منظر بہت اچھا لگتا ہے
پانی وقت کی طرح رواں دواں ہے
یا وقت پانی کی طرح
ہم پھولوں کی طرح ہیں یا
پھول ہماری طرح
پانی پھولوں کو جلدی بکھرنے نہیں دیتا
بالکل وقت کی طرح یہ بھی مرہم ہے
اسے بہتا ہوا پانی اچھا لگتا ہے
اور مجھے اس میں پھول پھینکنا
رواں دواں پانی زندگی ہے
اور پھول اس کی خوبصورتی
زندگی خوبصورت ہی اچھی لگتی ہے
٭٭٭

Kab kaha hai k mujhe fakher hai iss jeene par

کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر
روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر

مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی
میں تو اک دشت ہوں، آ جاؤں اگر پینے پر

بامِ شہرت پہ مجھے دیکھ کے حیران نہ ہو
پاؤں رکھا ہی نہیں میں نے ابھی زینے پر

آسماں کا ہی رہا میں، نہ زمیں کا ہی رہا
ذوقِ پرواز نے اس طرح مرے چھینے پر

وہ مرا نام جو لیتا ہے تو یوں لگتا ہے
جیسے گل کاڑھ رہا ہو کوئی پشمینے پر

جو بھی دل میں ہے کسی کے وہ رہے ویسے ہی
میں نہ بنیاد اٹھاؤں گا کبھی کینے پر

وہ مرے سامنے ہے اور ہے روشن سب کچھ
نظر اس کی بھی ٹھہرتی نہیں آئینے پر

سعدؔ یہ کارِ سخن، کس کو بتاؤں کیا ہے
ایک مزدور کی صورت ہوں میں روزینے پر

Ye kiya k dil-e-zaar issay sunate

یہ کیا کہ حالِ دلِ زار اسے سنانے کو
میں اپنے ساتھ رُلاتا ہوں اِک زمانے کو

جو اس کی یاد نہ آئے تو جی ٹھہر جائے
ہوا تو چاہیے بجھتا دیا جلانے کو

درونِ سینہ عجب شور سا ہے چڑیوں کا
کسی نے آگ دکھائی ہے آشیانے کو

میں کائنات میں بکھرا پڑا ہوں بے مصرف
یہ کس نے رنگ دیا ہے مرے فسانے کو

بھرم رکھا ہے اُسی نے مرا محبت میں
وہ آزما بھی تو سکتا تھا آزمانے کو

کہاں نکلتا ہے شیشے میں بال آیا ہوا
نبھا رہے ہیں تعلق تو ہم نبھانے کو

جو اختیار میں ہوتا تو کر گزرتے ہم
ذرا سی دیر نہ لگتی اسے بھلانے کو

وہ دل لگی میں نہ سمجھا کہ عشق کیا شے ہے
اب اس کے پاس تو کچھ بھی نہیں چھپانے کو

مجھے تو سعدؔ محبت کا پاس رکھنا ہے
اگرچہ اشک بھی باقی نہیں بہانے کو

Khud ko khoya hai tujhe apna banane k liya

خود کو کھویا ہے تجھے اپنا بنانے کے لیے
راہ گم کردہ رہے، راہ پہ آنے کے لیے

اے مری شمعِ فروزاں یہ ادا کیسی ہے
تو نے سب شمعیں جلائی ہیں بجھانے کے لیے

رائیگاں ہوتے ہوئے اپنے شب و روز تو دیکھ
کچھ مہ و مہر بنا ان کو سجانے کے لیے

بعد پروانے کے یہ راز کھلا ہے کس پر
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے

ہر گھڑی عشوہ گری کرتی نشیلی آنکھیں
جن میں وعدہ ہی نہیں کوئی نبھانے کے لیے

خودسری زیبا ہے تجھ کو کہ بھری دنیا میں
ہم تو آئے ہیں ترے ناز اٹھانے کے لیے

خامشی اپنی کوئی عجز نہیں ہے ہرگز
کوئی سنتا ہو تو کیا کچھ ہے سنانے کے لیے

جان لے سعدؔ یہ آساں بھی نہیں ہے اتنا
ہمیں درکار ہے تُو غم کو بھلانے کے لیے

Teri maarzi

تیری مرضی


میں اک پات خزاں کا
اور تُو تیز ہوا
تیری مرضی پر ہے
مجھ کو اُڑا یا گِرا
یہی ہے میرا مقدر
اور یہی ہے سزا
کیسے بکھروں گا میں
تو اب دیکھتی جا
بس کچھ دیر کے بعد اب
سمجھ میں خاک ہوا
٭٭٭

Zindagi daar k nahi hoti basar jane do

زندگی ڈر کے نہیں ہوتی بسر، جانے دو
 جو گزرنی ہے قیامت وہ گزر جانے دو 

دیکھتے جانا بدل جائے گا منظر سارا
یہ دھواں سا تو ذرا نیچے اُتر جانے دو

پھر چلے آئے ہو تم میری مسیحائی کو
پہلے کچھ رِستے ہوئے زخم تو بھر جانے دو

ایک خوشبو کی طرح زندہ رہو دنیا میں
اور پھر کیا ہے اگر خود کو بکھر جانے دو

آرزو اپنی بدل ڈالو خدا کی خاطر
ان کی دہلیز پہ پھوڑو نہ یہ سر، جانے دو

دلِ ناداں ! تو سمجھتا ہی نہیں دنیا کو
کون رکھتا ہے بھلا کس کی خبر، جانے دو

سعدؔ! تم عیب نکالو نہ ہمارے ایسے
ہم بھی رکھتے ہیں گلے شکوے، مگر جانے دو
٭٭٭

Apni fitrat k mutabik hi badal jate hain

اپنی فطرت کے مطابق ہی بدل جاتے ہیں
کس طرح لوگ نئے سانچے میں ڈھل جاتے ہیں

ہاں کوئی روشنی ان کو بھی نظر آتی ہے
ورنہ پروانے بھی کب ایسے ہی جل جاتے ہیں

تُو تو مانوس نہیں ہے کسی ویرانے سے
یہ کئی بار خزانے بھی اُگل جاتے ہیں

چاندنی رات میں باہر نہ نکلنا دیکھو
یہ جنوں والے تو ایسے ہی مچل جاتے ہیں

Koshish k bawajood bhi roya nahi gaya

کوشش کے باوجود بھی رویا نہیں گیا
دامن کا ایک داغ بھی دھویا نہیں گیا

برسے پھر ابر ایسے کہ بس کچھ نہ پوچھئے
وہ بیج بھی اگا کہ جو بویا نہیں گیا

آشفتگی کے زیرِ اثر گزرے رات دن
جاگا نہیں گیا کبھی سویا نہیں گیا

اب بھی تو چونک اٹھتے ہیں ہم اس کے نام پر
دل سے ہمارے وہم سا گویا نہیں گیا

زیبِ گلو کریں تو کریں کس طرح اسے
وہ پھول جو کہیں بھی سمویا نہیں گیا

ہم پر کھلا نہیں کہ وہ کیسا ہے عشق سعدؔ
جس میں کہ اپنا چین بھی کھویا نہیں گیا

Tanha faqat mujhe hi rulaya nahi gaya

تنہا فقط مجھے ہی رُلایا نہیں گیا
یاں کون ہے کہ جس کو ستایا نہیں گیا


مجھ کو ہی کوستے ہیں سبھی لوگ کس لیے
اب تک کسی سے عشق چھپایا نہیں گیا

فطرت کا اک نظام ہے تقسیمِ کار میں
اپنے لیے تو سب کو بنایا نہیں گیا

آنے میں اختیار نہ جانے میں اختیار
آیا نہیں گیا کبھی جایا نہیں گیا

مر مر کا ایک بت تھا مرے آئینے کے بیچ
جس پر کوئی بھی رنگ جمایا نہیں گیا

لوگوں نے پیڑ کاٹ دئیے دھوپ کے لیے
بس آسمان ان سے گرایا نہیں گیا

اے سعدؔ سن رہا ہوں میں اپنے وجود میں
ایسا ہی ایک نغمہ جو گایا نہیں گیا

Dil se koi bhi ehd nibhaya nahi gaya

دل سے کوئی بھی عہد نبھایا نہیں گیا
سر سے جمالِ یار کا سایا نہیں گیا

اک اک قدم پہ دشت بگولا بنا رہا
آنکھوں تک ایک نقش بھی لایا نہیں گیا

کب ہے وصالِ یار کی محرومیوں کا غم
یہ خواب تھا سو مجھ کو دکھایا نہیں گیا

ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں
ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا

وہ شوخ آئنے کے برابر کھڑا رہا
مجھ سے بھی آئنے کو ہٹایا نہیں گیا

ہاں جانتا تھا آگ لگے کی ہر ایک سمت
لیکن چراغ مجھ سے بجھایا نہیں گیا

وہ بھی تھا خود پسند تو میں بھی تھا بد دماغ
بارِ انا کسی سے اٹھایا نہیں گیا

آساں نہیں حضور جدائی کا مرحلہ
ہم سے تو ہاتھ تک بھی ہلایا نہیں گیا

اڑتا رہا میں دیر تلک پنچھیوں کے ساتھ
اے سعدؔ مجھ سے جال بچھایا نہیں گیا

Baab-e-hareem harf ko khola nahi gaya

بابِ حریمِ حرف کو کھولا نہیں گیا
لکھنا جو چاہتے تھے وہ لکھا نہیں گیا

خوئے گریز پائیٔ نقشِ قدم نہ پوچھ
منزل کی سمت کوئی بھی رستہ نہیں گیا

اک حرفِ محرمانہ لہو میں اُتر گیا
پھر اس کے بعد ہم سے بھی سوچا نہیں گیا

تفسیرِ آرزوئے وفا دھڑکنوں میں تھی
وہ چپ رہا تو ہم سے بھی بولا نہیں گیا

بے چینیوں نے ہم کو تماشا بنا دیا
محفل میں جا کے بیٹھے تو بیٹھا نہیں گیا

اس کے جلو میں بیٹھ کے دنیا کی کیا کہیں
ہم سے تو اپنی سمت بھی دیکھا نہیں گیا

نفرت ہمیں ملی نہ محبت ملی ہمیں
اپنی طرح سے کوئی بھی چاہا نہیں گیا

پتھر سے چشمہ پھوٹ پڑا میرے سامنے
اس سے بھی اشک آنکھ میں روکا نہیں گیا

سب کچھ وہ کر گزرتا ہمارے لیے مگر
لیکن وہ اپنے بخت میں لکھا نہیں گیا

اے سعدؔ تمکنت تھی بہت اس کے حسن میں
ہم سے تو دل پہ ہاتھ بھی رکھا نہیں گیا

Bara rahe thay taaluq to hum barhane ko

بڑھا رہے تھے تعلق تو ہم بڑھانے کو
رکھا نہ پیشِ نظر دل کے ٹوٹ جانے کو

حقیقتوں سے کہاں باخبر رہا کوئی
تھی خود فریبی ہماری ہمیں لبھانے کو

کسی کے بس میں نہیں ہے کہ کچھ بگاڑ سکے
ستا رہا ہے زمانہ مگر ستانے کو

پناہ دیتی ہے ہم کو ہمیشہ تنہائی
کہ چھوڑتا نہیں کوئی کبھی ٹھکانے کو

بس اس کے سامنے چلتی نہیں ہماری بھی
وگرنہ بات بناتے ہیں ہم بنانے کو

وہ بات اس کو نہ جانے رُلا گئی کیسے
جو بات اس نے کہی تھی ہمیں ہنسانے کو

Gardish mein hai jo apna sitara to kiya karein

گردش میں ہے جو اپنا ستارہ تو کیا کریں
وہ ماہ وش نہیں ہے ہمارا تو کیا کریں

پہلو تہی تو اس کی عیاں ہے بہت مگر
دل ہی اگر نہ سمجھے اشارہ تو کیا کریں

گرتا ہے کون ایسے کسی کے لیے اے دوست!
اس بِن نہ ہو جو اپنا گزارا تو کیا کریں

اشکوں سے آگ دل کی بجھائیں تو کس طرح
اپنے نفس میں ہے جو شرارہ تو کیا کریں

شکوہ کسی سے کیا کریں قسمت بری ہو جب
دریا میں پھینک دے جو کنارا تو کیا کریں

اے سعدؔ تیرے عشق میں کچھ بھی کمی نہیں
لیکن نہ ہو جو اس کو گوارا تو کیا کریں

Jab sitara hi muqadar ki taraf khanchta hai

جب ستارہ ہی مقدر کی طرف کھینچتا ہے
کیا کہیں کون ہے جو شر کی طرف کھینچتا ہے

ٹوٹ جانے میں بھی لذت ہے یقینا کوئی
ورنہ کون آئنہ پتھر کی طرف کھینچتا ہے

میری آنکھوں میں ہے اک سیپ کی صورت شاید
اک گہر مجھ کو سمندر کی طرف کھینچتا ہے

یہ روایت ہے روایت سے کرے کون گری
کوئی پتھر کو مرے سر کی طرف کھینچتا ہے

بس وہی پیار تو مرنے نہیں دیتا مجھ کو
دربدر کو جو کسی در کی طرف کھینچتا ہے

کششِ ثقل کو سمجھا ہے ذرا میں نے بھی
یہ کوئی مجھ کو مرے گھر کی طرف کھینچتا ہے

یہ مرا حسنِ نظر ہے یا ترا حسنِ جمال
دل ہر اک رنگ کو اندر کی طرف کھینچتا ہے

پھر کشش کرتا ہے وہ حرص و ہوس کی جانب
پھر وہی سانپ ہمیں زر کی طرف کھینچتا ہے

Phir chasm neem-o-issay tera khuwab dekhna

پھر چشمِ نیم وا سے ترا خواب دیکھنا
اور اس کے بعد خود کو تہِ آب دیکھنا

کیوں زخم ہائے سینہ پہ خنداں بہ لب ہیں دوست
اے آسمان! شیوۂ احباب دیکھنا

ٹوٹا ہے دل کا آئنہ اپنی نگاہ سے
اب کیا شکستِ ذات کے اسباب دیکھنا

شوریدگی پہ میری تُو حیرت زدہ ہے کیوں
دیوانگی ہے رات میں مہتاب دیکھنا

اُترے ہیں بحرِ عشق میں اہلِ جنوں سو اب
طوفان دیکھنا ہے نہ گرداب دیکھنا

تلخی میں بھی وہ بھولا نہیں آپ اور جناب
تہذیب اُس کی دیکھنا، آداب دیکھنا

کیسی ہے سرد مہریِ جاناناں سعدؔ جی
شل ہو نہ جائیں اپنے یہ اعصاب دیکھنا

Wo jo tumko yaad nahi hai

وہ جو تم کو یاد نہیں ہے


تم نے مجھ سے اتنی ساری باتیں کی تھیں
اتنی ساری باتوں میں اک بات تو ہو گی
جس کے پیچھے مہتابی اک رات تو ہو گی
مجھ کو باقی باتوں سے کیا لینا
میں نے تمہارے پاس جو اتنا وقت گزارا
ان لمحات میں کوئی تو اک لمحہ ہو گا
جس کے اندر تیرا دل بھی دھڑکا ہو گا
مجھ کو باقی لمحوں سے کیا لینا
وہ جو تم کو یاد نہیں ہے
میں اسے بھول نہیں پایا ہوں
وقت کہ جو خاموش بہت ہے
میرے سخن میں بولتا ہے
رازِ محبت کھولتا ہے
یہ اک راز تو میری عمرِ رواں کا حصہ ہے
اور زمانے بھرکے لیے اک قصہ ہے
٭٭٭

Kaash

کاش


میری دنیا کاش تک محدود ہے
لفظ کاش۔۔۔ اک ایسا پرندہ ہے
جو آکاش تک
اپنے شہپر پھیلاتا ہے
اور میری زمینِ خواہش پر
اپنا سایہ رکھتا ہے
٭٭٭

Wo lartay hain


وہ لڑتے ہیں


وہ لڑتے ہیں
مگر کس کے لیے آخر
کہ جو اُن کا نہیں ہے
خدا جانے ضمیر ان کا گوارا کس طرح کرتا ہے آخر
کہ وہ کتنی ڈھٹائی سے کسی کے حق پہ ڈاکہ ڈالتے ہیں
اور پھر خود کو معزز جانتے ہیں
سنا ہے وہ ضمیر ایسی کسی شے سے
ذرا بھی واقفیت تک نہیں رکھتے
تو ان پر حیرتیں کیسی
یہی خوش قسمتی ان کی
انہیں مرنے نہیں دیتی
مگر یہ بے حسی ان کی
ہمیں کیونکر ستاتی ہے
کہ جب جب سوچتے ہیں ہم
ہماری جان جاتی ہے
وہ لڑتے ہیں
کسی کے حق پہ مرتے ہیں
وہ کیونکر ایسا کرتے ہیں
٭٭٭

dr abdul qadeer khan tere naam ko salaam



ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے لیے 

اے ڈاکٹر قدیر! ترے نام کو سلام
اے محسنِ عوام! ترے کام کو دوام
پلکوں پہ اپنی دیپ تو دل میں ہیں مشعلیں
کر اس طرف خرام کبھی اے خُجستہ گام
تیرے لیے ہے گریہ کُناں دم بدم یہ آنکھ
ہم نے تو لوحِ دل پہ لکھا بس ترا ہی نام
جو بھی عدو ہے تیرا عدو ہے عوام کا
تجھ سے ہے دن ہمارا تو تجھ سے ہماری شام
یہ سگ نما سے لوگ مریں گے خود اپنی موت
ناکام ان کو کر دیا، تو نے کیا وہ کام
پرواز میں تو بن گیا اقبالؔ کا خیال
شاہیں صفت کے واسطے در ہے نہ کوئی بام
حرص و ہوس کے مارے ہوئے بے ضمیر لوگ
سورج مکھی کے پھول ہیں یہ وقت کے غلام
اے سعدؔ کیا ہے زندگی اپنی بقا کی سوچ
نامِ حسینؑ مانگ شہادت کا ایک جام
٭٭٭

Be-sada aahat

بے صدا آہٹ


میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا
تھا کس میں حوصلہ اتنا کہ اپنے خواب کو چھُو لے
مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو
مناظر اور ہی کچھ تھے
نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں
نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ خوشبو میں رچی سانسیں
نہ شہد آگیں سے لب اُس کے
نہ اُن پر حرفِ گل کوئی
مکمل اک نیا چہرہ
مکمل اک نیا لہجہ
وہ اس کا یوں بدل جانا تو اس کی اک ضرورت تھی
کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی
وگرنہ اس میں کیا شک ہے، اُسے مجھ سے محبت تھی
٭٭٭

Aa pari humpe koi aisi bhi iftaad nahi

آ پڑی ہم پہ کوئی ایسی بھی افتاد نہیں
کیوں دکھاؤں اسے وہ دل کہ جو آباد نہیں 

میں نے جس بات پہ توڑا تھا تعلق اس سے
 کیا تماشا ہے کہ وہ بات اسے یاد نہیں

اک خلش سی تو ہر اک حال میں رہتی ہے کہیں
کبھی ناشاد نہیں دل تو کبھی شاد نہیں

کون دیتا ہے مجھے جینے یہاں مرضی سے
اک پرندہ ہی نہیں، میں بھی تو آزاد نہیں

ہم نے توڑا ہے تعلق تو کسی جانب سے
حرفِ تحسین نہیں کوئی، کوئی داد نہیں
٭٭٭

khayal-e-hulqaa zanjeer se adalaat khach

خیالِ حلقۂ زنجیر سے عدالت کھینچ
عذابِ بارِ نفس ہے تو پھر ندامت کھینچ

ہوائے حرص و ہوس سے نکل کے دیکھ ذرا
ضمیرِ رشتۂ احساس سے ملامت کھینچ

فریبِ عشقِ بتاں سے نکل پئے ناموس
برنگِ خارِ مغیلاں زدشت راحت کھینچ

بنوکِ کلکِ امانت اٹھا لہو دل سے
جبینِ مصحفِ کردار پر صداقت کھینچ

برائے عظمتِ انساں بنامِ کرب و بلا
یزیدیت ہو مقابل تو پھر شجاعت کھینچ

بفیضِ صحبتِ رومیؔ و حافظؔ و بیدلؔ
بمثلِ غالبؔ و اقبالؔ تو ریاضت کھینچ

نہیں ہے سعدؔ پس و پیش عشق و مستی میں
کہا تھا کس نے کہ خود ہی سے یوں عداوت کھینچ

Ruye sohan nahi to sohan ka jawaaz kiya

رُوئے سخن نہیں تو سخن کا جواز کیا
بِن تیرے زندگی کے نشیب و فراز کیا

کتنی اداس شام ہے شامِ فراقِ یار
جانے گا کوئی رنجِ ستم ہائے راز کیا

بہتر ہے آئنے کے مقابل نہ آئیں ہم
تو جو نہیں تو خود سے بھی راز و نیاز کیا

تُو تو ہمارے شعر کے ظاہر پہ مر گیا
حُزن و ملال کیا تجھے سوز و گداز کیا

یہ شہرِ سنگ ہے یہاں ٹوٹیں گے آئنے
اب سوچتے ہیں بیٹھ کے آئینہ ساز کیا

جس کو نہ تابِ دید ہو، اے حسنِ بدگماں
اس کو ادا و عِشوہ و غمزہ و ناز کیا

غافل نہیں ہیں دوست کبھی بندگی سے ہم
عشقِ حقیقی گر نہیں عشقِ مجاز کیا

حاکم ہیں سعدؔ ہم نہ کسی کے غلام ہیں
محمود ہو کوئی یا کوئی ہو ایاز، کیا

aay meri qaum k jaan baaz jawanoo utho


اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
اپنے بگڑے ہوئے حالات کو جانو، اٹھو
وقت آیا ہے کہ اب حشر اٹھانا ہے تمہیں
اپنے محسن کو یزیدوں سے بچانا ہے تمہیں
نعرہ زن ہو کے ہر اک قصر گرانا ہے تمہیں
حاکمِ وقت سے ٹکرانے کی ٹھانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
جس نے اس ملک کو ناقابلِ تسخیر کیا
خوابِ کہسار کو شرمندۂ تعبیر کیا
اور پھر خواہشِ خوش رنگ کو تصویر کیا
اُس کی خاطر اے حمیّت کے نشانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
پھر وہی معرکۂ کرب و بلا ہے، دیکھو
شبِ تیرہ میں کوئی دیپ جلا ہے، دیکھو
پھر کوئی ملک بچانے کو چلا ہے، دیکھو
بس یہی رنگِ بقا ہے مری مانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
ہم نہ چھوڑیں گے کبھی اُس کے وفاداروں کو
ہم کہ پہچانتے ہیں اُس کے اداکاروں کو
کر ہی دیں ملک بدر، ملک کے غداروں کو
اب سرِ معرکہ اے شعلہ بیانو، اٹھو
اے مری قوم کے جاں باز جوانو! اٹھو
٭٭٭

Yaad

یاد


صبح کی خاموشی
میں برٹندرسل کا مضمون
The limits of Humanity
پڑھ رہا ہوں
اچانک کبوتر کے غٹرغوں، غٹرغوں
کی آواز آنے لگتی ہے
ساتھ ہی ہمسائیگی میں
پانی کی ڈونکی چلنے لگتی ہے
ذہن تینوں اطراف مصروف
کتاب، کبوتر اور ڈونکی
مگر ایک چوتھی شے بھی ہے
وہ ہے تمہاری یاد
وہ بظاہر کتاب، کبوتر اور ڈونکی
کی طرح موجود تو نہیں
لیکن وہ زیادہ براہِ راست لگتی ہے
اور ان تمام اشیاء پر چھائی ہوئی ہے
دیکھو میں کتاب چھوڑ کر
اس خیال کو سپردِ قلم کر رہا ہوں
٭٭٭

Dil k samandaron ko na payaab dekhna

دل کے سمندروں کو نہ پایاب دیکھنا
ہر گام اپنے آپ کو غرقاب دیکھنا

گہرائیوں میں ڈوبنا، گوہر تلاشنا
گویا کہ چشمِ بحر میں نیلاب دیکھنا

دریا کا پانی گھونٹ بنا کوہسار کا
آنکھیں ہوئی ہیں وقت کی خونناب دیکھنا

ہوتا ہوں کیوں اُداس! کبھی جان لو گے تم
شامِ شفق کے عکس میں سرخاب دیکھنا

خوشبوئے شامِ وصل سے لبریز ساعتیں
اب دیکھنا ذرا، دلِ بیتاب، دیکھنا

دیکھے گا کون وسعتیں اس کائنات کی
اے سعدؔ آسمان کو محراب دیکھنا

Ye ishq kiya hai faqat seher baryaabi hai

یہ عشق کیا ہے فقط سحرِ باریابی ہے
اور اس کے بعد جو عمروں کی نیم خوابی ہے

میں اپنی تشنہ لبی سے فریب کھاتا ہوں
وگرنہ سامنے صحرا بھری سرابی ہے

میں ایک جھیل کی صورت ہوں آئنے کی طرح
کسی کے دم سے یہ باطن بھی ماہتابی ہے

بیانِ حالِ دلِ ناصبور کون سنے
یہاں تو عشق و محبت بھی اب نصابی ہے

بس ایک خواہشِ بے سود ہے سمجھنا مجھے
جمالِ یار کا پرتو مری خرابی ہے

میں اپنے آپ سے نالاں بھی ہوں گریزاں بھی
کہ بے سبب ہی مرا آسماں گلابی ہے

سخنوری کے نشے میں بہک نہ جاؤں کہیں
کسی کی آنکھ میں تھوڑی سی بے حجابی ہے

bayse ranj-o-mohan gyaaz-o-gazab pochte hain

باعثِ رنج و محن، غیظ و غضب پوچھتے ہیں
ہم سے کیا بات ہوئی سوئے ادب، پوچھتے ہیں

رسمِ دنیا سے بھی آگاہ نہیں وہ کافر
ورنہ بیمار سے احوال تو سب پوچھتے ہیں

ایک وہ ہیں کہ تعلق سے ہیں یکسر منکر
ایک ہم ہیں کہ جدائی کا سبب پوچھتے ہیں

کیا کہیں ان سے جو خوشبو سے شناسا ہی نہیں
کیا کبھی پھول سے بھی نام و نسب پوچھتے ہیں!

دل دھڑکتا ہے کہ اے کاش وہ پوچھیں اپنا
سانس رک جاتی ہے سینے میں وہ، جب پوچھتے ہیں

پہلے تو آگ لگاتے ہیں تماشے کے لیے
اور پھر حال بھی وہ خندہ بہ لب، پوچھتے ہیں

حال ایسا کہ بتانے کے بھی قابل نہ رہا
لوگ ایسے کہ مرا حال بھی اب پوچھتے ہیں

سعدؔ شب زاد ہیں جو ایک دیے کی صورت
ان سے منزل کا پتہ کرمکِ شب پوچھتے ہیں

Waza dari na takaluf na latafat samjha

وضع داری نہ تکلف نہ لطافت سمجھا
دلِ کم فہم مروّت کو محبت سمجھا

قند میں لپٹا ہوا زہر تھا سب راز و نیا
میں کہ محرومِ وفا اس کو عنایت سمجھا

عین فطری تھا حسد مجھ سے مرے یاروں کا
جانے کیوں کر میں رقابت کو عداوت سمجھا

یہ مرا سحرِ سخن ہے کہ ترا رنگِ طلسم
ورنہ یاں کون صداقت کو صداقت سمجھا

ایک ہم ہیں کہ اذیت میں رہے شام و سحر
ایک وہ ہے کہ محبت کو ضرورت سمجھا

سعدؔ دانائی کی کیا بات چھپی ہے اس میں
تُو اگر میری محبت کو حماقت سمجھا

Kiya sarookar humein ronak-e-bazaar k saath

کیا سروکار ہمیں رونقِ بازار کے ساتھ
ہم الگ بیٹھے ہیں دستِ ہنر آثار کے ساتھ

چشمِ نمناک لیے، سینۂ صد چاک سیئے
دُور تک ہم بھی گئے اپنے خریدار کے ساتھ

ایک احساسِ وفا کی طرح بے قیمت ہیں
ہم کو پرکھے نہ کوئی دِرہم و دینار کے ساتھ

رنجشِ کارِ زیاں، دربدری، تنہائی
اور دنیا بھی خفا تیرے گنہگار کے ساتھ

سینۂ سنگ پہ گل رنگ بہار اُتری ہے
کس نے دیکھا تھا ہمیں ایسے کبھی پیار کے ساتھ

کاوشِ کوہکنی رسمِ محبت ٹھہری
تیشہ زن آج بھی فرہاد ہے کہسار کے ساتھ

سعدؔ رسوائے زمانہ ہے مگر تیرا ہے
یوں نہیں ہوتے خفا اپنے گرفتار کے ساتھ

Hasrat wasal mili lamha be-kaar k saath

حسرتِ وصل ملی لمحۂ بیکار کے ساتھ
بخت سویا ہے مرا دیدۂ بیدار کے ساتھ

اے مرے دوست! ذرا دیکھ، میں ہارا تو نہیں
میرا سر بھی تو پڑا ہے مری دستار کے ساتھ

وقت خود ہی یہ بتائے گا کہ میں زندہ ہوں
کب وہ مرتا ہے جو زندہ رہے کردار کے ساتھ

ایک احساس پسِ حرفِ تسلی اس کا
کاش وہ گھاؤ لگاتا مجھے تلوار کے ساتھ

نہ کوئی خندہ بلب ہے نہ کوئی گریہ کناں
تیرا دیوانہ پڑا ہے تری دیوار کے ساتھ

ایک آشوب نگر ہوں میں درونِ خانہ
ایک ماتم بھی ہے شامل مرے اشعار کے ساتھ

کیوں وہ انگشت بدنداں ہے مری حیرت پر
میں تو آئینہ ہوا نرگسِ بیمار کے ساتھ

بر لبِ ناز، گلِ حرفِ دعا میرے لیے
اے فلک دیکھ مجھے چشمِ گہر بار کے ساتھ

سعدؔ یہ عشق معمہ ہے مری ہستی کا
کوئی ظاہر ہوا مجھ پر مگر اسرار کے ساتھ

Dar pe hasti mohoom fiza si kiya hai

در پئے ہستی موہوم قضا سی کیا ہے
اپنا مقسوم جو ٹھہری وہ سزا سی کیا ہے

وجہِ تخلیقِ جہاں تھی مری لغزش ورنہ
رحمتِ حق کے مقابل یہ خطا سی کیا ہے

کیوں اڑاتی ہے مری خاک مجھے سوئے فلک
میرے انفاس میں شامل یہ ہوا سی کیا ہے

محوِ حیرت ہوں کہ ویرانے میں ہے کون مکیں
میرے سینے سے الجھتی یہ صدا سی کیا ہے

نہ کوئی صبحِ طرب ہے نہ کوئی شامِ نشاط
کچھ بھی کھلتا نہیں مجھ پر کہ اداسی کیا ہے

ریزہ ریزہ ہوئی جاتی ہیں مجسم شکلیں
الحذر! آئنہ خانہ میں بلا سی کیا ہے

تُو جو دریا ہے تو پھر توڑ دے ساحل اپنے
اے مری موجِ گریزاں یہ حیا سی کیا ہے

جب یقیں دل سے اٹھا تو مجھے احساس ہوا
گرد ہوتی ہوئی سر پر یہ رِدا سی کیا ہے

پاؤں کی مٹی بھی کب چھوڑ سکا پھر کوئی
زندگی! دیکھ ہماری یہ قضا سی کیا ہے

تُو اگر وہم ہے یا خام خیالی میری
پھر سرِ شام ان آنکھوں میں گھٹا سی کیا ہے

سعدؔ کیوں تجھ سے ملیں صرف بچھڑنے کے لیے
ہاں اگر طے ہے یہ سب کچھ، تو دعا سی کیا ہے

Mujhko chain nahi hai

مجھ کو چین نہیں ہے


مقناطیس کے باعث
لوہے میں جو ہلچل پیدا ہوتی ہے
چشمِ وا پہ ہویدا کب ہوتی ہے
لوہے کا تو اک اک ذرّہ بے بس ہو جاتا ہے
لاکھ جتن بھی کرو تم
ان ذرّوں کی بے تابی ختم کب ختم ہوئی ہے
مقناطیس اور لوہے کے مابین اک اَن دیکھا سا رشتہ ہے
جو آنکھ سے اوجھل ہے
لیکن اس رشتے کی خاص اک حد ہے
سعدؔ ہمارے رشتے کی تو کوئی حد ہی نہیں
یہاں بھی کوئی ان دیکھا سا رشتہ ہے
اور یہ سائنس کے بس کی تو بات نہیں
یہ اس کو سمجھے
جتنی بھی دوری ہو، اتنی قربت پیدا ہو جاتی ہے
میں کہ کہیں ہوں،وہ کہ کہیں ہے
لیکن مجھ کو چین نہیں ہے
٭٭٭

Mishaal zara be-maya lakht-e-sehra hoon

مثالِ ذرّۂ بے مایہ لختِ صحرا ہوں
 اسی سبب سے شہِ تاج و تختِ صحرا ہوں 

میں بازگشت ہوں شاید کسی بگولے کی
 بھٹک رہا ہوں کہ صوتِ کرختِ صحرا ہوں

صدا جرس کی، کہیں نقشِ پائے ناقہ ملا
 تلاش میں ہوں کسی کی، میں بختِ صحرا ہوں 

مری دعا میں طلب ہے کسی سمندر کی
 ’’نظر ہے ابرِ کرم پر درختِ صحرا ہوں‘‘ 

مری نظر میں ہے اے سعدؔ شامِ کرب و بلا
میں آشنائے شبِ راہِ سختِ صحرا ہوں
٭٭٭

Talisam husan-e-suhan se sajar banata hai

طلسمِ حسنِ سخن سے شجر بناتا ہے
پھر اس کے بعد وہ ان پر ثمر بناتا ہے  

وہ باخبر ہے مری ذات کے عناصر سے
 وہ چھان کر کے مری خاک، زر بناتا ہے

میں اس کے واسطے اک ریت کا گھروندا ہوں
اِدھر گراتا ہے مجھ کو، اُدھر بناتا ہے  

زمیں گھماتا ہے دیکھو وہ اپنی مرضی سے
 کہ چاک پر مرے شام و سحر بناتا ہے

جو چشم ہائے غزالاں کو دیکھ لیتا ہے
وہ ایک قطرہ کہاں پھر گہر بناتا ہے 

دل اپنی موج میں آئے تو پھر سرِ قرطاس
ہر ایک لفظ کو اک چشمِ تر بناتا ہے
٭٭٭

chalne se hai kaam humein

چلنے سے ہے کام ہمیں
راس نہیں بسرام ہمیں  

کس نے کہا تھا سامنے آ
 آگے بڑھ اب تھام ہمیں

سورج بھی ہے چاند بھی ہے
سحر ہوئی ہے شام ہمیں  

ہم نے آنکھیں دیکھی ہیں
بے معنی ہے جام ہمیں  

بات تو خاص یہی ہے بس
ملتا ہے وہ عام ہمیں  

اتنی زیادہ آزادی
سمجھو ہے اک دام ہمیں  

خواب ہے یا وہ آیا ہے
کرنے کے لیے رام ہمیں  

سعدؔ وہ کیونکر لگنے لگا
ایک خیالِ خام ہمیں
٭٭٭

Wo mujhko choor gaya aur gumaa talak na howa

وہ مجھ کو چھوڑ گیا اور گماں تلک نہ ہوا
کہاں تلک میں ہوا اور کہاں تلک نہ ہوا

عجیب آگ تھی بڑھتی گئی جو اشکوں سے
عجیب اشک تھے جن سے دھواں تلک نہ ہوا

غبارِ دشت برابر اٹھا فلک پیما
مگر اس آنکھ سے محمل نہاں تلک نہ ہوا

صدائے باد و جرس تو تمام شب ہی رہی
وہ کارواں بھی عجب تھا، رواں تلک نہ ہوا

مرے تو کام نہ آئی ستارہ سازی بھی
کہ چاند مجھ پہ کبھی مہرباں تلک نہ ہوا

یہ بے بسی تھی مری یا کہ بے نیازی تھی
کہ ہاتھ میرا بلند آسماں تلک نہ ہوا

میں سوچتا ہوں کہ وہ لوگ کس طرح کے تھے
کہ لوحِ وقت پہ جن کا نشاں تلک نہ ہوا

وفورِ رنج و الم میں بھی پاسِ وعدہ رہا
کہ میرا کوئی بھی جذبہ فغاں تلک نہ ہوا

Haraat-e-par tu-e-mahtaab se bahar nikala

حیرتِ پرتوِ مہتاب سے باہر نکلا
آنکھ کھلتے ہی میں اک خواب سے باہر نکلا

خاک برباد ہوئی ہے تو اُڑی پھرتی ہے
کب کوئی عالمِ اسباب سے باہر نکلا

زہرناکی مرے ماحول کو مجھ ہی سے ملی
میں کہاں منظرِ شاداب سے باہر نکلا

وہ زمیں بوس ہوا اور ہوا خاک میں خاک
جو ستارا کہ تب و تاب سے باہر نکلا

میں خلاؤں سے پلٹ آیا ہوں اور سوچتا ہوں
کچھ نہیں حسرتِ نایاب سے باہر نکلا

اک سلگتی سی تمنا کا دھواں ہے دل میں
بس یہی دیدۂ تلخاب سے باہر نکلا

شہپرِ خوف کا سایہ ہے ابھی تک سر پر
سعدؔ کب قریۂ خونناب سے باہر نکلا

Popular Posts