Tuesday, July 16, 2013

kabail ka raks

قابیل کا رقص


درونِ ذات اک دن چھڑ گیا چرچا، بقائے آدمیت کا
مرے اندر سے اک آواز آئی
یہ میزائل
یہ ایٹم بم
تباہی کی علامت ہیں
انھیں انسانیت کے نام پر
قربان کر ڈالو
سو میں نے پہلی فرصت میں
خلوصِ دل سے
اک اک اسلحہ کو تلف کر ڈالا
یہ کارِ خیر تھا
سو روح میں ٹھنڈک در آئی
مگر یہ کیف کا لمحہ
بہت ہی عارضی ٹھہرا
اچٹتی سے نظر ڈالی جو میں نے اپنی دنیا پر
تو یہ دنیا نظر آئی
اسی منزل پہ بھر مجھ کو
ہر اک جانب اسی سفاک منظر کی کثافت تھی
مسلح تھا ہر اک انساں
کہیں تیر و کماں سے اور
کہیں شمشیر و خنجر سے

مجھے ہر حال میں
اس امتحاں سے بھی گزرنا تھا
فزوں تر تھی مرے احساس میں
تقدیسِ مشتِ خاک
خدا کا شکر ہے
اس بار بھی میں سرخرو ٹھہرا
نظر کے سامنے
جتنے بھی تخریبی عناصر تھے
انھیں ایک ایک کر کے
میں نے نذرِ خاک کر ڈلا

مگر یہ کیا
وہ منزل
اب بھی میری دسترس سے دور ہی نکلی
یہ ساعت کیسی ساعت ہے
یہ منظر کیسا منظر ہے
مرے خوابوں نے جن ہاتھوں سے
میزائل و ایٹم بم کو چھینا تھا
کمان و تیر اور شمشیرو خنجر
جن سے لے کر توڑ ڈالے تھے
اب ان ہاتھوں میں ، تا حدِّ نظر پتھر ہیں
اور وہ سب
مسلسل آئینہ خانے کی جانب تک رہے ہیں
قلم کر دوں میں ان کے ہاتھ لیکن
نظر کی شعلگی باقی رہے گی
اَنا کا طنطنہ قائم رہے گا
لب و لہجے نشتر بھی رہے گا
درونِ جاں جو ہے قابیل کا رقص
اسے ممکن نہیں ہے ختم کرنا
تو گیا تیرگی یہ تسلسل
بدل کر شکل اپنی
ازل سے تا ابد یوں ہی رہے گا
اسی دن ختم ہوں گی یہ بلائیں
کہ جس دن ختم ہو جائیں گے ہم سب
٭٭٭

No comments:

Popular Posts