Tuesday, July 16, 2013

rang haye zaat




رنگ ہائے ذات
سفر کی ابتدا ہی سے
عجب انداز کی اک تشنگی
آنکھوں میں رقصاں ہے
یہ کیسی آرزو
انگڑائیاں لیتی ہے سانسوں میں
بہ ہر لمحہ یہ خواہش
کھِلتے جائیں ، سارے روزن، سارے در اور ساری سچائی تسلسل سے
یہ دریا مجھ پہ کھُل جائے
سمندر مجھ پہ ہو افشا
ردائے دشت کا
ایک ایک زرہ میرا محرم ہو
پہاڑوں کی بلندی
سرنگوں ہو میرے قدموں پر
یہ فہم و فکر سے بھی ماورا
آفاق کی وسعت
حصارِ کنجِ تنہائی کے
دامن میں سمٹ آئے
عروسِ کہکشاں
میری ہتھیلی پر ہو خیمہ زن
خلاصہ یہ
کہ بزمِ عالمِ امکاں
مری مٹھی میں آ جائے

سرِ تشنہ نگاہی
آج یہ عقدہ کھلا مجھ پر
مری آرزوؤں کے پسِ پردہ
اگر کچھ ہے تو بس یہ ہے
میں اپنے آپ پہ کھُل جاؤں
اپنے آپ کو دیکھوں

٭٭٭

No comments:

Popular Posts