Wednesday, April 29, 2009

تھا عشق اک فریب، گرفتار تھے ہمیں

تھا عشق اک فریب، گرفتار تھے ہمیں
اور اپنی ذات کے ہی طلب گار تھے ہمیں

اپنے ہی دل سے بر سرِ پیکار تھے ہمیں
اپنے لہو میں ڈوبتی تلوار تھے ہمیں

اپنی رضا سے دل دیا، مرضی سے لے لیا
مجبور ہم رہے ہیں تو مختار تھے ہمیں

ہم بھی گئے تھے شوقِ تماشا میں اُس طرف
اور دیکھا جب تو زینتِ بازار تھے ہمیں

مٹی کے مول تجھ کو صدفؔ مانگتے تھے لوگ
اے جنسِ بیش مایہ خریدار تھے ہمیں

Popular Posts