Wednesday, April 29, 2009

ہو گئے خاک! کب شکایت کی؟

بھولنے کی تجھے جو نیت کی
دل نے برپا نئی قیامت کی

ہو گئے خاک! کب شکایت کی؟
ہم نے اس طور سے محبت کی

وہ تھا کوفہ صفت، یقیناً تھا
دل مدینہ تھا، پر محبت کی

حوصلے میرے سارے زخمی تھے
آ کے امید نے عیادت کی

ہم ہیں مجبور دل کے ہاتھوں، خیر
آپ کہئے، کہ کیسے زحمت کی؟

ہم بھی آدم گزیدہ تھے لیکن
آدمی سے کبھی نہ نفرت کی

وقتِ رخصت وہ مسکرا دینا
ہائے کیا تھی گھڑی قیامت کی

سنگِ الزام پر تھا اُس کا نام 
چپ کی لیکن ہماری عادت تھی

دل صدفؔ، تیری یاد ہے موتی
ٹوٹ کر بھی تری حفاظت کی


.

Popular Posts