اب تک وہی خیال تمہارا ہے اور بس
لگتا ہے یہ بھی سال تمہارا ہے اور بس
لگتا ہے یہ بھی سال تمہارا ہے اور بس
صد حیف کیا گماں تھا ہمیں کارِ عشق میں
یعنی کہ ہم سا حال تمہارا ہے اور بس
ہم بھی کشاں کشاں جو چلے آ رہے ہیں یوں
اس میں فقط کمال تمہارا ہے اور بس
ہم جو اُداس ہوتے ہیں رہ رہ کے اس طرح
یعنی ذرا ملال تمہارا ہے اور بس
بے وجہ تو نہیں ہیں پریشانیاں مری
پیشِ نظر زوال تمہارا ہے اور بس
زیبائشِ سخن ہے مرے حرف حرف سے
معجز نما جمال تمہارا ہے اور بس
کیا پوچھتے ہو حالِ دلِ سعدؔ ہم سے تم
اک نقش خال خال تمہارا ہے اور بس
٭٭٭
No comments:
Post a Comment