Tuesday, July 16, 2013

suna hai wo bhi likhe ga humare baare mein

سنا ہے وہ بھی لکھے گا ہمارے بارے میں
کہ چاند، آن سمائے گا اک ستارے میں  

غضب کا زور ہو جب پانیوں کے دھارے میں
 کٹاؤ آتا ہے دریاؤں کے کنارے میں

پھر اس کے بعد کوئی راستہ نہیں رہتا
بقا نہ ڈھونڈ تو اپنی کسی سہارے میں  

عجیب لوگ ہیں، مجبوریاں خریدتے ہیں
 مگر یہ طے ہے کہ رہتے ہیں وہ خسارے میں

اک آئنے سے بھی نازک ہے کارِ اہلِ جہاں
ہوا کہ رہتی نہیں ہے کسی غبارے میں  

کسے خبر تھی کہ جنگل کو راکھ کر دے گا
عجیب آگ چھپی تھی اس اک شرارے میں 

انہیں خبر بھی نہیں تھی کہ مر رہے ہیں خود
وہ سعدؔ غرق تھے ایسے کسی نظارے میں
٭٭٭

main khwab se aagay ka safer mangta hoon

میں خواب سے آگے کا سفر مانگتا ہوں
 اے کاہکشاں ! راہ گزر مانگتا ہوں

میں شاہ سہی پر ہوں طلبگارِ سخن
خیرات میں مَیں کارِ ہنر مانگتا ہوں  

ظلمت سے اجالوں کی توقع کیسی
مجبور ہوں عادت سے، سحر مانگتا ہوں  

خواہش ہے مرے دل میں اسے پانے کی
اے دل! میں دعاؤں میں اثر مانگتا ہوں  

دیوار کے اس پار بھی جو دیکھ سکے
مولا سے میں ایسی ہی نظر مانگتا ہوں  

ان سیپ سی آنکھوں میں سمندر بھی ہے
اے سعدؔ مگر میں تو گہر مانگتا ہوں
٭٭٭

jab wo yaad aata hai baarishon k mausam mein

جب وہ یاد آتا ہے بارشوں کے موسم میں
 دل بھی ڈوب جاتا ہے بارشوں کے موسم میں

آنکھ سے سمندر تک پانیوں کی یورش ہے
جی تو بھر ہی آتا ہے بارشوں کے موسم میں  

کوئی روتا جاتا ہے بادلوں کی صورت میں
 کوئی مسکراتا ہے بارشوں کے موسم میں

کس قدر وہ مجھ سا ہے، پانیوں کے اندر جو
کشتیاں بہاتا ہے بارشوں کے موسم میں  

ابر بھی برستے ہیں، آنکھ بھی برستی ہے
کون غم چھپاتا ہے بارشوں کے موسم میں  

بارشیں تو باہر ہیں لیکن اک سمندر سا
مجھ میں آ سماتا ہے بارشوں کے موسم میں  

پانیوں کے اندر بھی آگ لگ ہی جاتی ہے
کوئی دل جلاتا ہے بارشوں کے موسم میں  

کیا نمو پذیری ہے پتھروں کے اندر سے
سبزہ سر اٹھاتا ہے بارشوں کے موسم میں
٭٭٭

wo hawa-e-tand thi iss ko jafaa hona hi tha

وہ ہوائے تند تھی، اس کو خفا ہونا ہی تھا
لیکن اپنے پاؤں پر ہم کو کھڑا ہونا ہی تھا 

اس کے آنے سے یقیناً بج اٹھے تھے جلترنگ
اور اس کے بعد ہم کو بے صدا ہونا ہی تھا 

صبر ہے اپنی جگہ پر غم کی شدت کیا کریں
اس کے جانے کا ہمیں کچھ رنج سا ہونا ہی تھا 

مطمئن سے ہو گئے ہیں ہم بالآخر سوچ کر
اک نہ اک دن ملنے والوں کو جدا ہونا ہی تھا 

یہ سزا ہے یا جزا، اِس سے نہیں اُن کو غرض
عشق والوں کو تو اُس کی خاکِ پا ہونا ہی تھا 

کس قدر تھی بے خودی، دیوار سے ٹکرا گئے
اُس درِ امکاں پہ ایسا حادثہ ہونا ہی تھا 

ہم نے اِس امید پر ہر جھوٹ اُس کا سن لیا
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘
٭٭٭

ye faragat mujhe nahi hai raas

یہ فراغت مجھے نہیں ہے راس
بیٹھے بیٹھے میں ہو گیا ہوں اداس 

مجھ کو پانی کی ہے طلب لیکن
میرے حصے میں آ گئی ہے پیاس 

آپ نے قیمتی کہا جس کو
ایک پتھر سے وہ ہوا الماس 

حسن کا شیوہ بے وفائی ہے
 کیسا اندازہ اور کیسا قیاس 

ان پہ پھولوں کی چھوٹ پڑتی ہے
میرے لفظوں سے آ رہی ہے باس 

میرے اشعار ہی کا سِحر تھا سعدؔ
اس کے ہونٹوں پہ تھا جو حرفِ سپاس
٭٭٭

aik wasat ki talab hai meri benai ko

ایک وسعت کی طلب ہے مری بینائی کو
جس میں دیکھوں درِ افلاک جبیں سائی کو 

کس قدر معجزہ آمیز تھی چاہت اس کی
ہم کہ شہرت ہی سمجھتے رہے رسوائی کو 

اک تنِ خشک میں شعلہ سا لپکتا دیکھا
پھر ہوا آگ لگاتی گئی شہنائی کو 

موت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا تھا
وہ جو تیار نہیں تھا ذرا پسپائی کو 

میری آنکھوں سے عیاں ہے مرے دل کی حالت
 جمنے دیتا ہی نہیں آبِ رواں کائی کو 

اپنے اشعار تو لہروں کی طرح ہوتے ہیں
کون جانے گا سمندر بھری گہرائی کو
٭٭٭

jab koi ghum mujhe satata hai

جب کوئی غم مجھے ستاتا ہے
کیوں اسی کا خیال آتا ہے  

اک اداسی سے میری پلکوں پر
 اک ستارہ سا جھلملاتا ہے

سامنے میرے ایک منظر ہے
کوئی رہ رہ کے مسکراتا ہے  

سوچتا ہوں کہ زندگی کیا ہے
وقت آخر تو بیت جاتا ہے  

پھر کوئی سانپ رینگتا ہے کہیں
 پھر کوئی آشیاں بچاتا ہے

کوئی تاراج کر رہا ہے انہیں
اور کوئی بستیاں بساتا ہے  

سعدؔ دریا تھا اپنا دل لیکن
اب کے یہ دشت بنتا جاتا ہے
٭٭٭

ab wafa aur jafaa kuch bhi nahi

اب وفا اور جفا کچھ بھی نہیں
اس کا دنیا میں صلہ کچھ بھی نہیں  

دل کو سینے میں چھپا رہنے دو
اس پہ داغوں کے سوا کچھ بھی نہیں  

اپنی بربادی کی تفصیل نہ پوچھ
 یوں سمجھ لے کہ بچا کچھ بھی نہیں

ہم نے تعمیر کیے تاج محل
خواب ٹوٹا تو بچا کچھ بھی نہیں  

مارتا جاتا ہے دنیا ساری
اور کہتا ہے ہوا کچھ بھی نہیں  

ہم نے دشمن کو لگایا ہے گلے
یعنی اب خون بہا کچھ بھی نہیں  

بے حسی اپنی کہاں تک پہنچی
اپنا دیکھا یا سنا کچھ بھی نہیں
٭٭٭

jo main ne chaha tha hojaye wo howa to nahi

جو میں نے چاہا تھا، ہو جائے، وہ ہوا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جدا تو نہیں  

وہ بے نیاز ہے تم سے تو چھوڑدو اس کو
 وہ ایک شخص ہے آخر کوئی خدا تو نہیں

اسی کی روشنی شامل ہے میرے اشکوں میں
جو دیپ اس نے جلایا تھا وہ بجھا تو نہیں  

ابھی ارادہ کیا تھا کہ جاں مہک اٹھی
ابھی خیال نے میرے اسے چھوا تو نہیں  

یہ سچ تو ہے کہ نہیں عشق پر مجھے قابو
 گلہ کیا ہے اگر اس نے یہ، گلہ تو نہیں 

وہ جس قدر ہے گریزاں مرے حوالے سے
اسے بتاؤ کہ میں اس قدر برا تو نہیں
٭٭٭

dao pe apni saari karamaat maat laga

داؤ پہ اپنی ساری کرامات مت لگا
دل دشت ہے تو دشت میں باغات مت لگا 

بنتی نہیں ہے بات تو سب رنگ پھینک دے
تصویر مت بگاڑ، علامات مت لگا 

ایسا نہ ہو کہ ملبہ مرا تجھ پہ آ گرے
 ’’دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہات مت لگا،، 

سائے میں میرے بیٹھ مگر احتیاط سے
 ’’دیوارِ خستگی ہوں مجھے ہات مت لگا،، 

اب ٹوٹ کر جو اَبر بھی برسیں تو فائدہ
سوکھے ہوئے درخت پہ یوں پات مت لگا 

کیا اعتبار ہے ترے آگے دلیل کو
اپنے بیاں کے ساتھ حکایات مت لگا 

تو مہر و مہ سے سیکھ ذرا زندگی کے ڈھنگ
دنیا کے کام کاج میں دن رات مت لگا 

اے راہبر تو جان لے، نیت پہ ہے مراد
مقصد کے ساتھ اپنے مفادات مت لگا 

اے سعدؔ کچھ ملال ضروری بھی ہے مگر
ہر وقت اس کی یاد میں برسات مت لگا 

اے سعدؔ اپنے کان کسی بات پر نہ دھر
اے سعدؔ اپنے دل کو کوئی بات مت لگا
٭٭٭

jo qadam tak utha nahi sakte

جو قدم تک اٹھا نہیں سکتے
دل کے رستوں پہ آ نہیں سکتے  

کیا ضروری ہے یہ بتانا اسے
ہم اسے گر بھلا نہیں سکتے  

وہ جو کاغذ کے اک مکان میں ہیں
 اک دیا تک جلا نہیں سکتے

وہ زمیں کو بہانہ کرتے ہیں
 جو بلندی پہ جا نہیں سکتے

جو پرندے ہوا سے ڈرتے ہیں
 وہ پروں کو بچا نہیں سکتے

جانتے ہیں ہم اس قدر، یعنی
 حال اپنا سنا نہیں سکتے

سعدؔ اپنا مزاج ایسا ہے
بارِ احساں اٹھا نہیں سکتے
٭٭٭

arooj apna tere naam intsaab kiya

عروج اپنا ترے نام انتساب کیا
یہ کم نہیں تجھے لاکھوں میں انتخاب کیا 

بچشمِ نم تجھے سوچاہے رات دن ہم نے
طلب نے اپنی تجھے خار سے گلاب کیا 

اب اس کے بعد بتاؤ عروج کیا ہو گا
کہ ہم نے ایک ستارے کو آفتاب کیا 

حسین خواب کی صورت تھی زندگی اپنی
کہ زندگی کو ہماری تجھی نے خواب کیا 

محبتوں کا تسلسل عروج پر پہنچا
کہ پیار ہم نے وطن سے بھی بے حساب کیا 

زبانِ خلق پہ پہنچے ہیں سعدؔ کیسے ہم
خدا نے شعر کو اپنی جو باریاب کیا
٭٭٭

ek talook mujhe nibhana tha

اک تعلق مجھے نبھانا تھا
وہ حقیقت تھی، میں فسانہ تھا 

دو کنارے تھے زندگی اور موت
 بیچ دریا سا اک زمانہ تھا 

ہجر و فرقت مرا مقدر تھا
وصل اس کا تو اک بہانہ تھا 

وہ جو آیا تھا آندھیاں لے کر
اُس نے ہر دیپ کو بجھانا تھا 

کچھ پرندے تھے خالی شاخوں پر
 میری آنکھوں میں آشیانہ تھا 

اس لیے ہم نے اس سے بات نہ کی
 یہ تو بس بات کا گنوانا تھا 

سعدؔ یہ یاد کب رہا ہم کو
ہمیں اس شخص کو بھلانا تھا
٭٭٭

ye dil ab rang dikhlane laga hai

یہ دل اب رنگ دکھلانے لگا ہے
 ہمیں یادوں سے بہکانے لگا ہے

چراغِ رہگزر ہوتا ہوا پل
 اسی کے نقش چمکانے لگا ہے

سخن کیسا، زمیں کو موسمِ گل
قبا پھولوں کی پہنانے لگا ہے  

ہر اک صورت میں گل کانٹا ہے ہم کو
 کِھلا ہے یا کہ مرجھانے لگا ہے

وہی جو ابر کی صورت ملا تھا
وہی تو پیاس بھڑکانے لگا ہے  

پریشاں تو ہوا ہے سنگدل بھی
 کہ اشک آخر جگہ پانے لگا ہے

اڑے گی ریت ساحل پر یقیناً
 کہ دریا اس سے کترانے لگا ہے

بچھڑ کر کوئی آسودہ رہا ہے
 بکھر کر کوئی پچھتانے لگا ہے

کبھی اک بھول ہم سے بھی ہوئی تھی
ہمیں بھی کوئی یاد آنے لگا ہے  

نہیں ہے سعدؔ وہ اپنا نہیں ہے
ہمیں یہ وہم بھی کھانے لگا ہے
٭٭٭

kehne ko apne paas koi kaam bhi nahi

کہنے کو اپنے پاس کوئی کام بھی نہیں
لیکن ہمارے بخت میں آرام بھی نہیں  

اے دوست کیا بتائیں محبت کی داستاں
آغاز بھی نہیں، کوئی انجام بھی نہیں  

ہم جانتے ہیں اڑتے ہی کیا ہو گا اپنے ساتھ
گرچہ ہمارے سامنے اک دام بھی نہیں  

ہم نے حقیقتوں سے اٹھایا ہے اپنا خواب
ہے گر خیال اس کا تو کچھ خام بھی نہیں  

اپنے لیے جو فاصلہ کوسوں پہ ہے محیط
اس بے وفا کے واسطے دو گام بھی نہیں  

چمکے گا ماہتاب کہاں، کچھ خبر نہیں
 اب سامنے تو اپنے کوئی بام بھی نہیں

اتنے بھی خوش نصیب نہیں، سب غلط ہے یہ
حرفِ دعا تو چھوڑیے، دشنام بھی نہیں
٭٭٭

ajnabi ban k guzar jate to achaa hota

اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا ہوتا 

جن کو تعبیر میسر نہیں اس دنیا میں
وہ حسیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا 

ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے
گر تری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا 

ان ستاروں کے چمکنے سے بھی کیا حاصل ہے
ہاں، تری مانگ کو بھر جاتے تو اچھا ہوتا 

ابرِ باراں کے سبھی قطرے گہر ہیں لیکن
تیری آنکھوں میں اُتر جاتے تو اچھا ہوتا 

ہم کو مارا ہے فقط تیز روی نے اپنی
سانس لینے کو ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا 

ہم کبھی شام سے آگے نہ گئے تیرے لیے
 شام سے تا بہ سحر جاتے تو اچھا ہوتا 

ہم نے جو پھول چنے، کام نہ آئے اپنے
تیری دہلیز پہ دھر جاتے تو اچھا ہوتا 

کس لیے سعدؔ مقدر کے بھروسے پہ رہے
ہم اگر خود ہی سنور جاتے تو اچھا ہوتا
٭٭٭

hitaa-e-pak bachana hi pare ga humko


خطۂ پاک بچانا ہی پڑے گا ہم کو
 اپنا گھر بار لٹانا ہی پڑے گا ہم کو 

کب تلک مرتے رہیں گے یونہی فرداً فرداً
 سر ہتھیلی پہ اٹھانا ہی پڑے گا ہم کو 

جتنا روئیں گے ہم اتنا ہی ہنسیں گے دشمن
 صفِ جنگاہ میں آنا ہی پڑے گا ہم کو 

اک اُجالا ہے ضروری کہ شبِ تار مٹے
دلِ صد چاک جلانا ہی پڑے گا ہم کو 

اب ضرورت ہے کہ پھر نعرۂ تکبیر لگے
سعدؔ یہ نعرہ لگانا ہی پڑے گا ہم کو
٭٭٭

chand be-noor howa badal mein

چاند بے نور ہوا بادل میں
کوئی نغمہ نہ رہا چھاگل میں  

دن بھی گزرا ہے درندوں میں مرا
شام آئی ہے مجھے جنگل میں  

اپنے لشکر نے مجھے گھیر لیا
 موت اُتری ہے مری پل پل میں

اب کے باقی نہ رہا فرق کوئی
ایک انسان میں اور پاگل میں  

ایک دوجے کو پڑے دیکھتے ہیں
کون لایا ہمیں اس دلدل میں
٭٭٭

zameen pe beth k hum asmaan ka sochtay hain

زمیں پہ بیٹھ کے ہم آسماں کا سوچتے ہیں
 جہاں پہنچ نہیں سکتے، وہاں کا سوچتے ہیں

جو اپنے آپ سے غافل نہیں کسی لمحے
وہ ایک زندگیِ جاوداں کا سوچتے ہیں  

جو اپنی بات پہ قائم، نہ اپنے وعدے پر
 وہ خود غرض تو فقط اپنی جاں کا سوچتے ہیں

جو پست لوگ ہیں خود سے نکل نہیں پاتے
 بڑے وہی ہیں جو سارے جہاں کا سوچتے ہیں

ہزار برق گرے اور آندھیاں آئیں
 پرندے پھر بھی نئے آشیاں کا سوچتے ہیں

بکھر چکے ہیں تو کیا حوصلہ نہیں ہارے
چلو کہ بیٹھ کے اک کارواں کا سوچتے ہیں
٭٭٭

aaj jo tujh se mila hai kal juda ho jaye ga

آج جو تجھ سے ملا ہے، کل جدا ہو جائے گا
دیکھتے ہی دیکھتے یہ سانحہ ہو جائے گا 

اس طرح سے ہو گئی ہے اس کی مجھ سے دشمنی
بن گیا گر میں دیا تو وہ ہوا ہو جائے گا 

ان گنت لوگوں سے اس نے چھین لی ہے زندگی
مار کر وہ خلق کو جیسے خدا ہو جائے گا 

اک حقیقت ہے مگر یہ مانتا کوئی نہیں
 اک نہ اک دن ہر کسی کا فیصلہ ہو جائے گا 

دو گھڑی کو سن لو مجھ سے دردِ دل کی داستاں
اور کیا ہے بس ذرا سا آسرا ہو جائے گا 

ہو سکے تو روک دے ظالم کو اس کے ظلم سے
سعدؔ ورنہ جینا تیرا اک سزا ہو جائے گا
٭٭٭

apne hone ka yaqeen chahate hain

اپنے ہونے کا یقیں چاہتے ہیں
کچھ نہ کچھ ہم بھی کہیں چاہتے ہیں  

ان کے دل صاف نہیں ہو سکتے
وہ جو انصاف نہیں چاہتے ہیں  

اپنی بستی بھی ہے جنگل کی طرح
کچھ شکاری کہ کمیں چاہتے ہیں  

دل دھڑکتا ہے کسی کی خاطر
سب مکاں کوئی مکیں چاہتے ہیں  

لوگ جو سوئے فلک دیکھتے ہیں
 اپنے حصے کی زمیں چاہتے ہیں

سرفرازی سے جو واقف ہی نہیں
سر کے اوپر بھی جبیں چاہتے ہیں  

سعدؔ وابستہ ہیں اک مرضی سے
اس لیے دنیا و دیں چاہتے ہیں
٭٭٭

sanihaa dar sanihaa har waqiya hona hi tha

سانحہ در سانحہ ہر واقعہ ہونا ہی تھا
جس طرح ہم کر رہے تھے، اس طرح ہونا ہی تھا 

جن کے خوں میں تھی تمازت، سرخرو ہوتے گئے
فرض تھا جو اہلِ حق پر، وہ ادا ہونا ہی تھا 

اپنی ذلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا
اُس نے جو کچھ کر دیا، ہم نے کہا، ہونا ہی تھا 

اپنی اپنی جی رہے ہیں لوگ اپنے شہر میں
جس قدر تھی بے حسی، یہ حادثہ ہونا ہی تھا 

کرچیوں میں بٹ گیا میں، ہاتھ زخمی ہو گیا
 آئنے میں خود سے میرا سامنا ہونا ہی تھا 

ایک جانب ہیں عوام اور اک طرف قاتل پرست
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘ 

کیا بسنت آئی، کٹیں بچوں کی پھر سے گردنیں
شوق کی قیمت پہ ایسا سانحہ ہونا ہی تھا 

سعدؔ جو کچھ ہو رہا ہے شامتِ اعمال ہے
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘
٭٭٭

phir wohi ranj-e-nadamat hai pereshani hai

پھر وہی رنجِ ندامت ہے، پریشانی ہے
 پھر وہی شعبدہ بازوں کی فراوانی ہے

پھر وہی بدلے ہوئے چہرے مرے سامنے ہیں
پھر سرِ آئنہ پھیلی ہوئی حیرانی ہے  

جن کے دامن میں بہار آئی دعاؤں سے مری
 وہ سمجھتے ہیں مرے بخت میں ویرانی ہے

جو بھی حاکم ہوا میرا، ہوا غیروں کا غلام
 یہی جمہور ہے اپنا، یہی سلطانی ہے

امتحاں اس کو کہیں ہم کہ مقدر اپنا
 جبر کی رات ہے اور اپنی گراں جانی ہے

آنے والوں کے لیے چھوڑ رہے ہیں کیا کچھ
 بھوک ہے، ننگ ہے اور بے سروسامانی ہے

نا امیدی بھی نہیں مجھ کو کہ ایماں ہے مرا
 اک نہ اک روز قیامت کی گھڑی آنی ہے

نہ کوئی چور ہے ان میں، نہ لٹیرا کوئی
 بہرِ قانون یہی حقِ سلیمانی ہے

سعدؔ کیا ہو گا اثر ان پہ تری باتوں کا
ان کی آنکھوں میں حیا ہے، نہ ذرا پانی ہے
٭٭٭

rah-e-wafa mein jalaa aashtaan hi dekh ayein

رِہِ وفا میں جلا آستاں ہی دیکھ آئیں
حمیّتوں کا یہ روشن نشاں ہی دیکھ آئیں  

بدل لیا در و دیوار نے بھی رنگ اپنا
نکل کے گھر سے ذرا آسماں ہی دیکھ آئیں  

یہ نقش ہائے شہیداں فلک کی آنکھ میں ہیں
 زمین پر یہ پڑی کہکشاں ہی دیکھ آئیں

ہے کس میں حوصلہ دیکھے جلے ہوئے بچے
 نہیں سکت کہ جلی تختیاں ہی دیکھ آئیں

تڑپتے لاشوں پہ ہائے وہ وِکٹری کے نشاں
 چلو کہ ماؤں کو ماتم کناں ہی دیکھ آئیں

خزاں بہار کے سارے نشاں مٹا دے گی
’’چلو کہ بکھری ہوئی پتیاں ہی دیکھ آئیں،،
٭٭٭

nahi hai yoon k muqadar pe apne pachtain

نہیں ہے یوں کہ مقدّر پہ اپنے پچھتائیں
 بساط بھر ہی سہی، دشمنوں سے لڑ جائیں

لہو لہو ہے وطن اور ہمیں پکارتا ہے
 اُٹھو کہ موجِ حوادث سے آج ٹکرائیں

خزاں بہار کے سارے نشاں مٹا دے گی
 ’’چلو کہ بکھری ہوئی پتیاں ہی دیکھ آئیں،، 

بنا دیا ہے تماشا ہمیں تو اپنوں نے
 مگر یہ وقت نہیں ہے کہ زخم سہلائیں

وہی ہیں عشق کے وارث، وہی ہیں پروانے
جلے جو شمع تو خود کو نہ وہ بچا پائیں  

گلوں کو آگ لگی جب تو جل بجھی خواہش
کہ مثلِ بادِ سَحر باغ باغ مہکائیں  

شجر شجر پہ ہے آکاس بیل چمٹی ہوئی
کہاں سے سعدؔ بھلا اِن پہ پھول پھل آئیں
٭٭٭

kis tarhan paak hoye ashk bahane wale

کس طرح پاک ہوئے اشک بہانے والے
 یہی معصوم ہیں زندوں کو جلانے والے

لوگ دیکھیں گے کسی روز مکافاتِ عمل
لاش بن جائیں گے لاشوں کو گرانے والے  

ننگِ دیں، ننگِ وطن اور جو غدار بھی ہیں
اب کے باتوں میں نہیں ان کی ہم آنے والے  

آستینوں کے ہیں جو سانپ، کچل دو ان کو
 ورنہ روئیں گے انہیں دودھ پلانے والے

ان کی سفاکی نے اک چپ سی لگا دی ہے ہمیں
کتنے ہی نوحے وگرنہ ہیں سنانے والے  

کس نے تاراج کیا شہر کو، سب جانتے ہیں
 اور اوجھل بھی نہیں حکم چلانے والے

رنگ لائے گی وکیلوں کی ہر اک قربانی
سعدؔ مٹ جائیں گے سب ان کو مٹانے والے
٭٭٭

khoof kyu aaye ajaal se humko

خوف کیوں آئے اجل سے ہم کو
 یہ ہے انعام ازل سے ہم کو 

کیسے رہنا ہے اسی دنیا میں
 ہوا تعلیم کنول سے ہم کو 

آج کے بعد وہی کل ہو گی
 یہی تشویش ہے کل سے ہم کو 

پھر درندے ہیں مسلط سر پر
 کیا ملا ردّ و بدل سے ہم کو 

بس یہی ہے کہ بھلا لگتا ہے
 اور کیا تاج محل سے ہم کو 

دشت در دشت پھرایا اس نے
عشق تھا یعنی غزل سے ہم کو 

وقت بے رنگ نظر آئے گا
 وہ نکالے کسی پل سے ہم کو 

سعدؔ میں چور ہوں اور چور ہے سعد
کوئی پہچانے عمل سے ہم کو
٭٭٭

bas aik kaam hai baqi jo karna chahata hoon

بس ایک کام ہے باقی، جو کرنا چاہتا ہوں
 میں اپنی قوم کے غم ہی میں مرنا چاہتا ہوں

میں کیوں کہوں گا مرے رہنما لٹیرے ہیں
 میں اپنے سر ہی یہ الزام دھرنا چاہتا ہوں

میں زخم زخم ہوں اپنے طبیب کے ہاتھوں
 میں اپنے اشکوں سے یہ زخم بھرنا چاہتا ہوں

رکا ہوا ہوں کہیں میں، کسی کنارے پر
 میں ایک دریا ہوں حد سے گزرنا چاہتا ہوں

میں دشت دشت بھٹکتا ہوا بگولا ہوں
کسی مقام پہ کب میں ٹھہرنا چاہتا ہوں  

مرا بدن تو زمیں پر پڑا ہوا ہے کہیں
میں آسمان سے نیچے اترنا چاہتا ہوں
٭٭٭

ghar bachaane se hat k sochte hain

گھر بچانے سے ہٹ کے سوچتے ہیں
 آشیانے سے ہٹ کے سوچتے ہیں

قتل واجب ہوا ہمارا بھی
 ہم زمانے سے ہٹ کے سوچتے ہیں

سر کہ بارِ گراں ہے کاندھوں پر
 اس کے شانے سے ہٹ کے، سوچتے ہیں

جس میں کردار ہی نہیں اپنا
 اس فسانے سے ہٹ کے سوچتے ہیں

ان کو برداشت کر تو اے دنیا!
کچھ پرانے سے ہٹ کے سوچتے ہیں
٭٭٭

main tha masroof abhi khoon-e-jiger peene mein

میں تھا مصروف ابھی خونِ جگر پینے میں
 پھر مسیحا نے چھرا گھونپ دیا سینے میں

ایسے لگتا ہے مری سانسیں بہت قیمتی ہیں
 مشکلیں اتنی جو حائل ہیں مرے جینے میں

کیا منافع سے سروکار ہو ہم کو کہ جہاں
 اپنا نقصان بھی آتا نہیں تخمینے میں

کیسی تہذیب کے وارث ہیں یہ اہلِ مغرب
 پھر سے یک جاں ہیں مسلماں کا لہو پینے میں

ایسے لگتا ہے کہ آئے ہیں کسی پستی سے
جن کو افلاک نظر آنے لگے زینے میں

jo hadiyoon se meri baam-o-dar banata hai

جو ہڈیوں سے مری بام و در بناتا ہے
 وہ میرے دل میں کہاں اپنا گھر بناتا ہے

یہ سوچ کر کہ کسی روز جھک ہی جائے گا
 وہ میرے کاندھوں پہ ہر روز سر بناتا ہے

مرا وجود قفس میں پڑا ہے ٹوٹا ہوا
 یہ کون پھر بھی مرے بال و پر بناتا ہے

اسی کی شامتِ اعمال ہے سمجھ لینا
 جسے تو پہلے پہل معتبر بناتا ہے

وہ خار بن کے کھٹکتا ہے میری آنکھوں میں
 مرا عدو جسے نورِ نظر بناتا ہے

یہ رات کیا ہے فقط آفتاب اوجھل ہے
 ذرا ٹھہر، یہ ابھی اک سحر بناتا ہے

عجیب شعبدہ بازی ہے اس کے ہاتھوں میں
جو میری آنکھ میں شمس و قمر بناتا ہے
٭٭٭

fiker-e-anjaam kar anjaam se pehle pehle

فکرِ انجام کر انجام سے پہلے پہلے
 دن تو تیرا ہے، مگر شام سے پہلے پہلے

کیسے دم توڑ گئیں سینے میں رفتہ رفتہ
 حسرتیں، حسرتِ ناکام سے پہلے پہلے

باعثِ فخر ہوا رہزن و قاتل ہونا
 گھر اجڑتے تھے اس الزام سے پہلے پہلے

آئے بکنے پہ تو حیرت میں ہمیں ڈال دیا
 وہ تو بے مول تھے نیلام سے پہلے پہلے

ہو بھی سکتا ہے، بہت خاص نظر آنے لگیں
 وہ جو لگتے ہیں بہت عام سے پہلے پہلے

ہائے وہ وقت کہ طاری تھی محبت ہم پر
 ہم بھی چونک اٹھتے تھے اک نام سے، پہلے پہلے

ہم بھی سوتے تھے کوئی یاد سرہانے رکھ کر
 ہاں مگر گردشِ ایام سے پہلے پہلے

کس قدر تیز ہوائیں تھیں سرِ شام کہ دل
 جل بجھا رات کے ہنگام سے پہلے پہلے 

اب کے مشکل وہ پڑی ہے کہ یہ جاں جاتی ہے
سعدؔ رہتے تھے ہم آرام سے پہلے پہلے
٭٭٭

mere khwabon mein chand utaara gaya

میرے خوابوں میں چاند اتارا گیا
 کس محبت سے مجھ کو مارا گیا 

ایک قاتل نے تخت خالی کیا
 ایک قاتل کو پھر پکارا گیا 

میری آنکھوں میں خون اُتر آیا
 مجھ کو مقتل سے جب گزارا گیا 

میرے بازو نہیں رہے میرے
لو مرا آخری سہارا گیا 

پھر مرے ہاتھ پاؤں چلنے لگے
جب مرے ہاتھ سے کنارا گیا 

سب سے بڑھ کر تھا سانحہ اپنا
جنگ کے ساتھ دل بھی ہارا گیا 

لوگ ہنستے ہیں اپنی باتوں پر
ہم جو کہتے ہیں دل ہمارا گیا 

میری قیمت وصول ہوتے ہی
سعدؔ دشمن پہ مجھ کو وارا گیا
٭٭٭

aise lagta hai yehi qaum k ghumkhuwaar hain bas

ایسے لگتا ہے یہی قوم کے غم خوار ہیں بس
رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس 

ان پہ کیوں کھولتے ہو جنتِ فردوس کے باب
 اہلِ دنیا ہیں، یہ دنیا کے طلب گار ہیں بس 

اہلِ حق جانتے ہیں عدل کے اثمار ہیں کیا
 اہلِ ظلمت پہ یہ اثمار گراں بار ہیں بس 

ملک لوٹا ہے مگر پھر بھی معزز ہیں وہ
 کیسی مجبوری کہ ہم ان کے طرف دار ہیں بس 

ہم وہ بدبخت نہیں چاہتے ہیں اپنوں کو
 اور غیروں کی محبت میں گرفتار ہیں بس 

کون سا جرم تھا اپنا کہ ملی جس کی سزا
ہم سیہ کار مروت کے سزاوار ہیں بس
٭٭٭

aik jugnu hi sahi aik sitara hi sahi

ایک جگنو ہی سہی، ایک ستارا ہی سہی
 شبِ تیرہ میں اجالوں کا اشارا ہی سہی 

اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
 اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی 

ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے
 جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی 

جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی 

اک تغیر تو ضروری ہے، کسی سمت بھی ہو
 کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی 

ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
 اک تماشا ہی سہی، ایک نظارا ہی سہی 

اب کے ایسا بھی نہیں ہے کہ گنوا دیں سب کچھ
 ہم کو حکمت میں کوئی بات گوارا ہی سہی 

سعدؔ ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی

ye sadat mujhe mola ne anayat ki hai

یہ سعادت مجھے مولا نے عنایت کی ہے
 میں نے بے خوف وکیلوں کی وکالت کی ہے

کب ہے احسان کسی پر یہ مرا کارِ عمل
 میں نے حق بات کہی ہے تو عبادت کی ہے

مجھ کو لڑنا ہے یزیدوں سے ہر اک حالت میں
 یہ روایت مجھے کربل نے وراثت کی ہے

میرے دشمن سے جو لیتا ہے مدد میرے خلاف
 آزمانے کی مجھے اس نے جسارت کی ہے

وہی غدار ہے، آمر ہے، وطن دشمن ہے
 جس نے چوروں کی، رذیلوں کی کفالت کی ہے

حرفِ انکار نے توڑا ہے جو بت ظلمت کا
 اس نے برپا سرِ ایوان، قیامت کی ہے

ہم جنوں خیز نہیں رُکنے کے اب موت سے بھی
 ہم نے تو نامِ خدا اب کے بغاوت کی ہے

بس وہی شخص بہادر ہے بھری بستی میں
 جس نے مظلوم کی ہر لمحہ حمایت کی ہے

سعدؔ بزدل تو عدو بھی نہیں اچھا ہوتا
بات ساری تو مری جان! شجاعت کی ہے
٭٭٭

be-naam adal masawaat choor jaye ga

بنامِ عدل مساوات چھوڑ جائے گا
 ہمارا عہد سوالات چھوڑ جائے گا 

جو روشنی نہ رہے گی تو کیا کرو گے تم
 تمہارا سایہ تلک ساتھ چھوڑ جائے گا 

تم آفتاب کی چاہے ہزار پوجا کرو
 یہ دن گزرتے ہی اک رات چھوڑ جائے گا 

بکھر تو جائے گا اک پھول پر بکھرتے ہی
 ہوا کے دوش پہ اک بات چھوڑ جائے گا 

ذرا سنبھل کے مری جان یہ زمانہ ہے
 سرِ لبادہ نشانات چھوڑ جائے گا 

کچھ اس طرح کا ہے ناتا مرا زمانے سے
 ہوا کا جھونکا کہیں پات چھوڑ جائے گا 

کسی کے ساتھ چلو سعدؔ پر یہ دھیان رہے
کسی بھی وقت کوئی ہاتھ چھوڑ جائے گا
٭٭٭

showcase jaisa mera ye ghar

شوکیس جیسا میرا یہ گھر


مری ماں کی نگاہیں
کئی دن سے
مرے پیکر سے کچھ
سرگوشیاں سے کر رہی تھیں
مسرت سے عجب حالت تھی ان کی
کبھی ممتا بھری آنکھوں میں
جگنو سے چمکتے تھے
کئی دن سے فضا آنگن کی بدلی بدلی
اور کچھ مختلف سے لگ رہی تھی
مرے بابا کی آنکھوں میں بھی کچھ
خوش رنگ منظر تھے
ابھی وہ رات میں بھولی نہیں ہوں
میں اپنی ماں کے سینے سے لگی
لیٹی ہوئی تھی
مرے بالوں میں ان کی انگلیاں تھیں
میں ان کی انگلیوں کے پوروں کی
ساری صدائیں سن رہی تھی
مرے چہرے پہ
ان کی خوش نظر آنکھوں کے لہجے کی ضیائیں تھیں
جو خاموشی سے میرے کان میں کچھ کہہ رہی تھیں
نہ ماں کے لب ہلے تھے اور نہ میرے
مگر وہ بات مجھ سے کر رہی تھیں
میں اک اک بات ان کی سن رہی تھی
مرے احساس کی ساری صدائیں
مری ماں کی
رگِ احساس سے ٹکرا رہی تھیں
وہ باتیں
قربتوں کے ٹوٹنے کی اک کہانی تھی
مرا وہ ہاتھ
جو بچپن سے ان کے ہاتھ میں تھا
مرے اس ہاتھ کی ساری لکیروں پر
مری ماں اب کسی کا نام لکھنا چاہتی تھیں
جسے سن کر
مرے چہرے پہ شاید
خوف کا سایہ سا لہرایا
مرے احساس کے جلتے ہوئے
صحرا کے دامن پر
مری آنکھوں سے
کچھ نا دید آنسو
اس طرح ٹپکے
کہ جس کے چھن سے بجنے کی صدا
مری ماں کی سماعت تک بھی پہنچی
مرے آنسو کی یہ آوازِ گریہ
بھلا کیسے نہ ان کانوں تک آتی
کہ وہ خود بھی کبھی بیٹی رہی ہیں
پھر اس کے بعد تو وہ
مختلف سی ماں نظر آئیں
مرے اس خوف کے سائے کو
کم کرنے کی خواہش میں
مرے ماں باپ نے پھر سے مجھے
معصوم سی بچی بنا ڈالا
جسے دیکھو
کھلونے دے کے بہلا نے لگا مجھ کو
بہن کہتی مری باجی تو
اس جوڑے میں
شہزادی لگیں گی
یہ ٹیکا
ان کی پیشانی کو چھوتے ہی
کچھ اس صورت سے دمکے گا
کہ سورج، چاند، تارے
شرم سے چہرہ چھپا لیں گے
کہیں سے یہ صدا آتی
یہ کنگن، چوڑیاں ، یہ ہار، یہ جھمکے کی جوڑی
یہ سب سونے کے زیور
تکلم آشنا ہو جائیں گے
گڑیا سے مل کر
مجھے کچھ دن سے اس گھر پر
کھلونوں کی دکانوں کا گماں ہونے لگا ہے
کسی سی کیا کہوں
اور کیا کوئی اس بات کو سمجھے
کھلونے پھر کھلونے ہیں
یہ ہر دکھ کی دوا تو ہو نہیں سکتے
مرے اندر جو لڑکی رو رہی ہے
وہ نوحہ جومرا دل پڑھ رہا ہے
کھلوں سے بھرا
شوکیس جیسا میرا یہ گھر
مرے دکھ کو ہوائیں دے رہا ہے
مری نظریں کھلونوں کو نہیں
خلا کی وسعتوں کو تک رہی ہیں
مری آنکھیں مسلسل
گمشدہ اس نیند کو
آواز پر آواز دیتی جا رہی ہیں
جو میرے خوف کے سائے نے
میری ماں کی آنکھوں سے
چُرا لی ہے
کوئی وہ نیند میری ماں کو لوٹا دے
مرے سارے کھلونے مجھ سے لے جائے
٭٭٭

naye shook ka haasil hai

نے شوق کا حاصل ہے

حسب عادت
جانے کب سے
کھیل رہے تھے ہم آپس میں
موتی کے ان دانوں سے
جن دانوں کو باندھ رکھا تھا
اک کمزور سے دھاگے نے
وہ دھاگہ
جس دھاگے پر ہے
صدیوں سے آسیب کا سایہ
جیسے کوئی
خزاں رسیدہ زر دسا پتہ
بے وقعت اور بے مایہ
کھیل ہی کھیل میں
جانے کیسے ، جانے کیوں کر
پھر وہ مالا ٹوٹ گئی
سورج، چاند، ستارے جیسے
سارے موتی بکھر گئے
موتی کیا بکھرے کہ
ہمارے خواب ہی سارے بکھر گئے
سچے موتی کے وہ دانے
اک دوجے سے دور ہوئے
آنکھ کے تارے
خاک بسر ہو جانے پر مجبور ہوئے
دیر تلک آنکھوں نے دیکھا
حسرت سے اس منظر کو
کچھ موتی کیچڑ میں پڑے تھے
کچھ مٹی
کچھ جھاڑی میں
سب کے چہرے اُترے اُترے
سب کے دامن خاک آلود
آب و تاب کی اک اک لَو پر
تیز ہوا کی ہے یلغار
سورج، چاند، ستارے
سب کے کھو جانے کے ہیں آثار
وائے حسرت
واہ رے اپنی کم نظری
سچے موتی کے دانوں کو
ڈھونڈ نے اور چُننے سے قبل
اپنی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں
اس کمزور سے دھاگے کو
جس دھاگے میں
خواب پرونے کی خواہش
لاحاصل ہے
لیکن یہ دل آج بھی کارِ لاحاصل پہ مائل ہے
اب تک یہ لاحاصل کوشش
اپنے شوق کا حاصل ہے
٭٭٭

kabhi jee chahata hai

کبھی جی چاہتا ہے


ہم اپنی ماہیت پر
سوچ کے حیران ہوتے ہیں

کبھی پربت کا قامت
ہیچ لگتا ہے نگاہوں کو
کبھی ذرّے کے سائے میں
پناہیں ڈھونڈتا ہے جسم
کبھی مٹھی میں ہفت افلاک کو ہم قید کرتے ہیں
کبھی اک پھول کا سایہ اٹھائے سے نہیں اٹھتا
کبھی سینے کا طوفاں
روند دیتا ہے سمندر کو
کبھی اک بوند پانی میں
سراپا ڈوب جاتا ہے

کبھی دن کے اُجالے میں نظر آتا نہیں کچھ بھی
کبھی گھُپ تیرگی میں
نور بکھراتا ہے یہ عالم
کبھی چہرہ بہ چہرہ عکسِ تیرہ رقص کرتا ہے
کبھی منظر بہ منظر حُسن کی رعنائی ہوتی ہے

کبھی یہ خارجی دنیا
بڑی خوش رنگ لگتی ہے
کبھی ہم چاہتے ہیں
کاش یہ آنکھیں نہیں ہوتیں
یہ کافر دل نہیں ہوتا

کبھی ارمان کی نکہت دلوں کو گدگداتی ہے
اَنی بن کر کبھی قلب و نظر میں خواب چبھتے ہیں
کبھی صحنِ چمن کے نام سے وحشت سے ہوتی ہے
کبھی صر صر تکلم کرتی ہے خوشبو کے لہجے میں
کبھی پاتے ہیں خود کو
وسعتِ امکاں سے بھی آگے
کبھی جیسے مقّید ہوں
کسی چھوٹے سے زنداں میں

کبھی اک ہلکی آہٹ پر سراپا کانپ اُٹھتا ہے
کبھی جی چاہتا ہے
بارشِ سنگِ ملامت ٹوٹ کے برسے
اور اس بارش میں ہم تا دیر
گھنگھرو باندھ کے ناچیں
٭٭٭

aaj main aik nazam likhoon ga

آج میں اک نظم لکھوں گا

مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
کسی کی یاد لے آئی تھی
پھولوں کی نمائش میں
مرے قدموں کی آہٹ سنتے ہی
صحنِ گلستاں میں
لبوں کے ذکر، عارض کی کہانی کا
اک ایسا سلسلہ چھیڑا تھا پھولوں نے
کہ جس کو نظم کرنے سے
فضائے وقت قاصر تھی
چلی تھی بات ان آنکھوں کی چکھ ایسے تناظر میں
کہ خوشبو نے ٹھہر کر
چشمِ نرگس کے لیے بوسے
سراپا گوش بر آواز تھیں کلیاں بہ ہر جانب
تبسم ریز غنچے عالمِ حیرت میں غلطاں تھے
گلوں کو اس طرح
انگڑائیاں لیتے ہوئے دیکھا
تو موسم کی رگوں میں
بجلیاں جیسے اُتر آئیں
کسی نادیدہ حدت نے دیا مہمیز آنچل کو
نکھرتی شام نے چھیڑا ایکا یک ذکر گیسو کا
بہ ہر جانب شبستاں میں
کسی کی بات چل نکلی

میسر تھی فضا کو رنگ و خوشبو کی فراوانی
مگر وہ قامتِ زیبا
نہ بن پایا کسی سے بھی
مجھے اس خال و خط کو
آج شاید نظم کرنا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
٭٭٭

rang haye zaat




رنگ ہائے ذات
سفر کی ابتدا ہی سے
عجب انداز کی اک تشنگی
آنکھوں میں رقصاں ہے
یہ کیسی آرزو
انگڑائیاں لیتی ہے سانسوں میں
بہ ہر لمحہ یہ خواہش
کھِلتے جائیں ، سارے روزن، سارے در اور ساری سچائی تسلسل سے
یہ دریا مجھ پہ کھُل جائے
سمندر مجھ پہ ہو افشا
ردائے دشت کا
ایک ایک زرہ میرا محرم ہو
پہاڑوں کی بلندی
سرنگوں ہو میرے قدموں پر
یہ فہم و فکر سے بھی ماورا
آفاق کی وسعت
حصارِ کنجِ تنہائی کے
دامن میں سمٹ آئے
عروسِ کہکشاں
میری ہتھیلی پر ہو خیمہ زن
خلاصہ یہ
کہ بزمِ عالمِ امکاں
مری مٹھی میں آ جائے

سرِ تشنہ نگاہی
آج یہ عقدہ کھلا مجھ پر
مری آرزوؤں کے پسِ پردہ
اگر کچھ ہے تو بس یہ ہے
میں اپنے آپ پہ کھُل جاؤں
اپنے آپ کو دیکھوں

٭٭٭

raakhi

راکھی


مبارک ہو مری ہمزاد
تم نے آج پھر انعام جیتا ہے
تمھاری فتح مندی کا تسلسل
آج تک قائم و دائم ہے
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ تم
گزشتہ آٹھ برسوں میں کبھی اوّل نہیں آئیں
تمھارے ذہن کی وہ روشنی چہر ہے پہ لکھی ہے
جو تم کو ہر قدم پر
منفرد کرتی ہے اوردں سے
تمھارے ہاتھ کو
فن کار جادو میسر ہے
تمھاری انگلیوں میں
زندگی کی وہ حرارت ہے
جو رنگوں کو
تکلم آشنا کر دیتی ہے اکثر
خدا نے تم کو جو آواز دی ہے
اسے کوئل اگر سُن لے
تو اپنی کوک پر شرمائے تا دیر
تمھیں سنتے ہوئے محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے چاندی
صحرا میں پائل چھنچھناتی ہے
مگر جب تم
کسی احساس کو تصویر کرتی ہو
کلر اسکیم میں
وہ رنگ رکھنا بھول جاتی ہو
کہ جس کے لمس سے
تصویر کے لب گنگناتے ہیں
مناظر، دیکھنے والوں سے پیہم بات کرتے ہیں
تمھاری گنگناہٹ میں
نسیمِ صبح کی خوشبو مہکتی ہے
مگر گاتے ہوئے تم عین موقع پر
کبھی سُر بھول جاتی ہو
کبھی لَے توڑ دیتی ہو
مجھے معلوم ہے ، وہ کون ہے
جو اکثر
تمھارے سامنے سے
رنگ لے کر بھاگ جاتا ہے
بھرے دربار میں
جو ساز لَے توڑ دیتا ہے
تمھاری بات کرتی
آنکھ کے لہجے میں بھی
جو دخل دیتا ہے
تمھاری روح کے شوکیس میں
رکھے ہوئے سارے کھلونوں پر
وہ جس کا نام لکھا ہے
تمھاری آنکھ
اس معصوم بچے کو
ابھی تک ڈھونڈتی ہے
وہ رشتہ۔۔۔۔۔ اور اس رشتے کی خوشبو
ابھی تک ہم رکابِ زندگی ہے
تمھاری ذات کے صحرا میں
جو یہ پیاس رقصاں ہے
مجھے ڈرے
کہیں یہ پیاس
جزوِ جاں نہ بن جائے
یہ رنج و غم۔۔۔۔۔ تمھاری ذات کا عنواں نہ بن جائے
سوا تشنہ لبی کو
آؤ اب ہم یوں بجھاتے ہیں
تمھارے سامنے رکھی ہوئی
یہ خوبصورت
دل نشیں راکھی
جو مدت سے
کسی آہٹ کی اب تک منتظر ہے
اسے تم اپنے ہاتھوں
باندھ لو
اپنی کلائی پر
علاجِ تشنگی کی
دوسری صورت نہیں کوئی
٭٭٭

kamtizaib



قامتِزیب

لکھوں میں کس طرح اس قامتِ زیبا کی رعنائی
جو مجھ پر کھول دیتی ہے مرے اندر کی پہنائی
سرِ بزمِ تصور جب بھی اس پیکر کی یاد آئی
سماعت جاگ اٹھّی ہے نکھر اٹھّی ہے بینائی
کروں زنجیر کیسے ان نگاہوں کی نواؤں کو
ادائے جنبشِ لب کو تبسم کی ضیاؤں کو
میں اس کی انگلیوں کے لمس کی حدّت کو کیا لکھوں
نفس کی آنچ سے منسوب اس لذّت کو کیا لکھوں
ہنسی کو کیا کہوں ، گفتار کو لکھوں تو کیا لکھوں
میں اس کے ابروئے خمدار کو لکھوں تو کیا لکھوں
میں اس زلفِ سیہ کو ابرا سے تشبیہ کیسے دوں
گھٹا کو مرتبہ بخشوں اسے ترجیح کیسے دوں
تبسّم ریز ہونٹوں کو متاعِ خواب میں لکھوں
میں اس آہنگ کو کیا نام دوں کس باب میں لکھوں
صراحی سے بھلا تشبیہ کیوں دوں اس کی گردن کو
کروں کم حیثیت آخر میں کیوں فن کار کے فن کو
لکھوں کس برگِ گُل پر نکہت و آہنگ کی باتیں
کروں کس پھول سے اس عارضِ خوش رنگ کی باتیں
میں اس کی نقشِ پا کو سایۂ گُل لکھ نہیں سکتا
جو سنبل سے ہے افضل اس کو سنبل لکھ نہیں سکتا
میں اس کی چوڑیوں کی صوت کو عنوان کیا دیتا
جو خود پہچان ہے اپنی اسے پہچان کیا دیتا
حنائی انگلیوں کی کب کوئی تمثیل ممکن ہے
خیالی بام و در سے کیا کوئی تکمیل ممکن ہے
میں کیوں اس پیرہن کو صورتِ رشکِ چمن لکھوں
بھلا اس سانس کی خوشبو کو کیوں مشکِ ختن لکھوں
نظر کی جوت سے انفاس کو چھونے کی باتیں ہیں
یہ سب احساس سے احساس کو چھونے کی باتیں ہیں
اسے یکتائی حاصل ہے ابھی تک اپنی وحدت میں
تقابل کے لیے منظر نہیں ہے حسنِ فطرت میں
میں خوشبو کی حرارت لفظ میں تحریر کیا کرتا
خطوطِ خال و خد قرطاس پر تصویر کیا کرتا
حیا کا رنگ اس کا عشوہ انداز کیا لکھتا
مُروّج حرف سے راز اس کا ناز کیا لکھتا
گہر، شبنم، شفق، جگنو، ستارے ، آبجو، افشاں
چمن، رنگِ حنا، دامانِ گُل، کھلتی ہوئی کلیاں
تبسّم، نکہت و نغمہ، لطافت، آئینہ، جھرنا
یہ سب الفاظ اس کے حسن کے آگے ہیں بے معنیٰ
میں ان بے نور لفظوں سے کشیدوں روشنی کیسے
میں ان حرفوں سے لکھوں زندگی کو زندگی کیسے
سوا اس کے حسن کی تفہیم کی بس ایک صورت ہے
نئے الفاظ کی تشکیل اب میری ضرورت ہے
نئے لفظوں سے اب اس حسن کو زنجیر کرنا ہے
بہ اندازِ دگر اس خال و خد میں رنگ بھرنا ہے
مگر یہ سوچ کر کچھ مضمحل سا آج یہ دل ہے
نئے الفاظ کے ابلاغ کا امکان مشکل ہے

chingaarion ka dhamaal

چنگاریوں کا دھمال


چودھویں کے چاند کا بھی
کیا عجب انداز ہے
بحر پہ کچھ جھیل میں کچھ
آب جو پر اور کچھ
دامنِ صحرا پہ
اس کی خوش خرامی اور ہے
چاند کو دریا پہ دیکھا
خامشی سے ، سر جھکائے
دور تک جاتے ہوئے
نرم، نازک لہر کو
پازیب پہنا تے ہوئے
رقص کرتی موج پر
کرنوں کو برساتے ہوئے
سطحِ دریا پر بنے
رنگوں کے قصرِ ناز میں
آتے ہوئے
جاتے ہوئے
خواب آنکھوں میں سجائے
اور گھونگھٹ کاڑھ کے بیٹھی
عروسِ شب سے
کچھ کہتے ہوئے
سنتے ہوئے

چاند کس درجہ
سمندر آشنا ہے
اس سے بھی واقف ہوں میں
موج کارہ رہ کے
سوئے چرخ تکنا یاد ہے
اونچے سُر میں
چاندنی کا گنگنانا یاد ہے
رات کی شائستگی
موجوں کی وحشت یاد ہے
اضطرابِ بحر کا
ایک ایک منظر یاد ہے

جھیل کے آئینے میں بھی
میں نے دیکھا ہے اسے
اپنا چہرہ فخریہ انداز میں تکتے ہوئے
اک ادائے خاص سے
تا دیر اپنے عکس کو
جھیل کی گہرائیوں میں
سینت کر رکھتے ہوئے

ہاں مگر وہ رات
جو بستی ہے میری روح میں
اس کی شوخی
اس کے جلوے
اس کی رعنائی نہ پوچھ
ذرہ ذرہ نغمہ زن تھا
لمحہ لمحہ مشک بو
کیکروں کی شاخ پر بھی
موتیے کے پھول تھے
جل رہے تھے
دامنِ سبزہ پہ
گوہر کے چراغ
صورتِ گل
محفلِ انجم سجی تھی شاخ شاخ
ریت کے ٹیلوں پہ کوئی
جڑ گیا تھا کوہِ نور
ثبت ہے احساس میں
وہ حدتِ رنگِ جمال
نرم ٹھنڈی ریت پر
چنگاریوں کا وہ دھمال
دور تک پھیلی ہوئی
بارہ دری میں رات بھر
روشنی کی گفتگو تھی
زندگی کا ذکر تھا
ہر طرح تھی رقص میں
اک رنگ و نکہت کی فضا
یوں گماں ہوتا تھا
جیسے آسماں ہو زیرِ پا
شاہ وارث لکھ رہے تھے ہیر
میرے سامنے
اور فضا مخمور تھی
اس شاعری کے نور سے
بانسری کی دھن پہ
محوِ رقص تھی اس رات ہیر
سسّی نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں
تا حدِّ نظر
سوہنی کچے گھڑے سے
کر رہی تھی گفتگو
چاندنی کی بے حجابی
اور وہ رنگِ فضا
چوڑیاں شیشے کی
پیہم بج رہی تھیں چارسو
پھوس کے وہ چھوٹے چھوٹے گھر
وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں
رنگ میں ڈوبی ہوئی
وہ چاندنی آنچل کی چھاؤں
کہکشاں جیسے
زمیں پر آ گئی ہو گھومنے
روشنی جیسے جھکی ہو
آئینے کو چومنے

ان مناظر کی تمنا ہے
تو مانو ایک بات
تھَر کسی بستی
تھَر کے صحرا میں گزارو
ایک رات
٭٭٭

kabail ka raks

قابیل کا رقص


درونِ ذات اک دن چھڑ گیا چرچا، بقائے آدمیت کا
مرے اندر سے اک آواز آئی
یہ میزائل
یہ ایٹم بم
تباہی کی علامت ہیں
انھیں انسانیت کے نام پر
قربان کر ڈالو
سو میں نے پہلی فرصت میں
خلوصِ دل سے
اک اک اسلحہ کو تلف کر ڈالا
یہ کارِ خیر تھا
سو روح میں ٹھنڈک در آئی
مگر یہ کیف کا لمحہ
بہت ہی عارضی ٹھہرا
اچٹتی سے نظر ڈالی جو میں نے اپنی دنیا پر
تو یہ دنیا نظر آئی
اسی منزل پہ بھر مجھ کو
ہر اک جانب اسی سفاک منظر کی کثافت تھی
مسلح تھا ہر اک انساں
کہیں تیر و کماں سے اور
کہیں شمشیر و خنجر سے

مجھے ہر حال میں
اس امتحاں سے بھی گزرنا تھا
فزوں تر تھی مرے احساس میں
تقدیسِ مشتِ خاک
خدا کا شکر ہے
اس بار بھی میں سرخرو ٹھہرا
نظر کے سامنے
جتنے بھی تخریبی عناصر تھے
انھیں ایک ایک کر کے
میں نے نذرِ خاک کر ڈلا

مگر یہ کیا
وہ منزل
اب بھی میری دسترس سے دور ہی نکلی
یہ ساعت کیسی ساعت ہے
یہ منظر کیسا منظر ہے
مرے خوابوں نے جن ہاتھوں سے
میزائل و ایٹم بم کو چھینا تھا
کمان و تیر اور شمشیرو خنجر
جن سے لے کر توڑ ڈالے تھے
اب ان ہاتھوں میں ، تا حدِّ نظر پتھر ہیں
اور وہ سب
مسلسل آئینہ خانے کی جانب تک رہے ہیں
قلم کر دوں میں ان کے ہاتھ لیکن
نظر کی شعلگی باقی رہے گی
اَنا کا طنطنہ قائم رہے گا
لب و لہجے نشتر بھی رہے گا
درونِ جاں جو ہے قابیل کا رقص
اسے ممکن نہیں ہے ختم کرنا
تو گیا تیرگی یہ تسلسل
بدل کر شکل اپنی
ازل سے تا ابد یوں ہی رہے گا
اسی دن ختم ہوں گی یہ بلائیں
کہ جس دن ختم ہو جائیں گے ہم سب
٭٭٭

khilonay ab mujhe poem sunatey hain

کھلونے اب مجھے پوئم سناتے ہیں



کھلونوں کی دکانیں
اور وہ شوکیس میں رکھے ہوئے
سارے کھلونے
جنھیں بچپن میں
میں تا دیر تکتا رہتا تھا اکثر
بسا اوقات
ان سے گفتگو ہوتی تھی میری
میں ان سے
اور وہ مجھ سے
کچھ اس درجہ شناسا تھے
کہ ہم اک دوسرے سے دور رہ کر بھی
کیا کر تے تھے باتیں
اور ہم اک دوسرے کا ہاتھ تھا مے
گھوما کرتے تھے
کبھی پھلواری کی رنگین بستی میں
کبھی بازاروں کی ہنستی فضاؤں میں
کبھی اک ساتھ ملک کر ہم
اڑا کرتے تھے
بادل کی رفاقت میں
کبھی تتلی پکڑے تھے
کبھی جگنو کے پیچھے
بھاگتے رہتے تھے راتوں کو
بسا اوقات تو
خوابوں میں بھی ان سے ملا کرتا تھا میں
کھلونے
میرے قطرہ ہائے خون میں
یوں کیا کرتے تھے گردش
کہ میں ان کے تبسم کا اجلا دیکھتا تھا
صحنِ گلشن کی فضاؤں میں
کلی کے پیرہن میں
پھول کے طرزِ تکلم میں
شفق کے رنگ میں
افلاک کے ہنستے ستاروں میں
رفاقت آج بھی قائم ہے میری
ان کھلوں سے
میں اب بھی کھیلتا رہتا ہوں ان سے
مگر اب وہ کھلونے
دکانوں سے نکل کر
آ گئے ہیں
ہمارے آنگنوں میں
ہماری گود میں
نرسری اسکول کے
خوش رنگ منظر میں
بصارت کی ضیا میں
ہماری آرزوؤں
اور تمناؤں کے روشن استعاروں میں
مہکتے مسکراتے
خواب کے تازہ شماروں میں
کھلونوں کے لبوں سے
واقعی اب پھول جھڑتے ہیں
یہ سچ مچ جگنوؤں اور تتلیوں کے ساتھ
پہروں رقص کرتے ہیں
میں سچ مچ ان کو سینے سے لگا کر
بادلوں کے ساتھ اُڑتا ہوں
کھلونے اب مجھے پوئم سنا تے ہیں
ترانہ گنگناتے ہیں
مرے خوابوں کو
ساون رُت میں یہ جھولا جھلاتے ہیں
کھلوں کو
حرارت زندگی کی بخش دی ہے
میرے خالق نے
٭٭٭٭٭

chooti ki ghanti

چھُٹّی کی گھنٹی


یہ قبل از وقت کیوں بجنے لگی
اسکول سے چھٹی گھنٹی
ابھی تو بستے سے
امی کے ہاتھوں کی حرارت تک نہیں اُتری
ابھی تو پانی کو بوتل کا پانی
سر بسر سیماب صورت ہے
ابھی قرطاس ابیض پر
کوئی تارا انہیں اُتر
ابھی نوکِ قلم سے
آگہی کی ضو نہیں پھوٹی
کتابوں کے ورق پر
چاندنی پھیلی نہیں اب تک
حروف و صوت کے انوار سے
دانش کدے کی رُت نہیں بدلی
عروسِ صبحِ نو کے پیرہن پر گفتگو کرنے
ہماری مِس نہیں آئیں
ابھی اک دوسرے سے
دوستوں نے یہ نہیں پوچھا
برائے لنچ ہم اپنے گھروں سے
لائے ہیں کیا کیا
یہ دس کا نوٹ
گھنٹے بھر سے
میری جیب میں جو کسمسا تا ہے
ابھی اس کی خبر پہنچی نہیں ہے
میری یاروں تک
ابھی تو ہم نے پوچھا ہی نہیں اک دوسرے سے
کہ کل کا دن گزارا کس طرح ہم نے
اور آج اسکول کے بعد
اور کیا کیا ہم نے کرنا ہے

یہ آخر کون ہے
جس کا تھکن نا آشنا بازو
بجائے جار رہا ہے دیر سے
چھٹی کی گھنٹی
مسلسل پانچ چھ منٹوں سے
اس کا شور جاری ہے
یہ گھنٹی وہ نہیں
جس کی صدائے دل نشیں سے ہم شناسا ہیں
یہ کوئی اور گھنٹی وہ نہیں
جس کی صدائے دل نشیں سے
ہم شناسا ہیں
یہ کوئی اور گھنٹی ہے
مگر گھنٹی ہے
مگر تو گھنٹی ہے
کہ جس کے بجنے کے معنی میں
چھٹی
سو آؤ چھٹی کرتے ہیں
بہت شدت سے ہے اصرار
آؤ چھٹی کرتے ہیں
فرشتے غالباً
پکنک پہ لے جائیں گے ہم کو
٭٭٭

adalaat

عدالت


عدالت کی یہ مرضی ہے
کہ میں
کلام اﷲ کو چھوکر قسم کھاؤں
کہ میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا

مجھے اس بات سے انکار تو ہر گز نہیں ہے
مگر می لارڈ
مجھے کچھ عرض کرنے کی اجازت دیں
اگر میں نے کلاک اﷲ کو چھوکر
قسم کھا لی
کہ میں جو کچھ کہوں گا سچ کہوں گا
تو پھر
مرے ہونٹوں سے جو بھی حرف نکلے گا
اسے سچ ماننا ہو گا عدالت کو
اگر یہ غیر ممکن ہو
تو پھر میری گزارش ہے
قسم کھانے پر اس ناچیز کو
مجبور مت کیجے
صحیفہ کوئی بھی ہو
اس کا اک اپنا تقدّس ہے
جسے پامال ہوتے دیکھنا
ممکن نہیں مجھ سے

٭٭٭

architect



آرکیٹکٹ

میں آرکیٹیکٹ ہوں
اور نام بھی ہے معتبر میرا
جدید انداز کی تخلیق
اک پہچان ہے میری
بفضلِ رب
خیالوں کو کمالِ فن میسر ہے
بلند و بالا میناریں
عماراتِ حسیں
بیراج، پُل
کیا کیا نہیں شہکار ہیں میرے
مری تخلیق پر
ہم عصر میرے رشک کرتے ہیں
یہ سب سچ ہے
مگر مجھ سے کبھی
اک ہاسپیٹل
بن نہیں پاتا
یہ نقشہ
میرے ہاتھوں سے
مکمل ہو نہیں پاتا
بنا لیتا ہوں میں سب کچھ
مگر وہ گوشۂ ویراں
جو اس کا جزوِ لازم ہے
وہ مجھ سے بن نہیں پاتا
کہ میر انگلیوں سے
مردہ خانہ بن نہیں پاتا

abhi daariya mein paani hai

ابھی دریا میں پانی ہے


اسیرِ وسوسہ کیوں ہو
وطن کے روز و شب سے
کس لیے بیزار ہوا تنے
تمھاری آنکھ میں کیوں
بے یقینی رقص کرتی ہے
رگوں میں آخرش
کیوں خوف کا عالم ہے اس درجہ
ابھی تو اپنی مٹی میں
نمو کا وصف زندہ ہے ابھی دریا میں پانی ہے
ابھی جھیلیں نہیں سوکھیں
ابھی جنگل نہیں اُجڑے
فضاؤں میں ابھی تک
بادلوں کا آنا جانا ہے
ہواؤں میں نمی کا سلسلہ
قائم و دائم ہے
ابھی تک فصلِ گُل کا
دامنِ شاداب باقی ہے
ابھی تک قطرۂ شبنم کی
آب و تاب باقی ہے
نظر کے سامنے فصلیں ابھی تک لہلہاتی ہیں
ہمارے نام کے دانے
اُگا کرتے ہیں کھیتوں میں
ہماری سر زمیں کی
پھول سے نسبت ابھی تک ہے
ابھی تک تتلیاں پرواز کرتی ہیں گلستاں میں
ابھی تک جگنوؤں کی روشنی
دل کو لبھاتی ہے
زمین پہ چاندنی کے رقص کا جادو
ابھی تک ہے
حرارت زندگی برف نے اب تک نہیں چھینی
سلگتے مہر نے
برسات کا موسم نہیں چھینا
ابھی صحراؤں کے عفریت سے
محفوظ ہیں دریا
ابھی نخلِ تمنّا کی
ہری شاخیں سلامت ہیں
ابھی قدموں کے نیچے
ماں صفت
مٹی کی حدّت ہے
مرے بھائی
تم اس سچائی سے آگاہ تو ہو گے
پرندے ایسے موسم میں
کبھی ہجرت نہیں کرتے

٭٭٭

Popular Posts