سنا ہے وہ بھی لکھے گا ہمارے بارے میں
کہ چاند، آن سمائے گا اک ستارے میں
کہ چاند، آن سمائے گا اک ستارے میں
غضب کا زور ہو جب پانیوں کے دھارے میں
کٹاؤ آتا ہے دریاؤں کے کنارے میں
پھر اس کے بعد کوئی راستہ نہیں رہتا
بقا نہ ڈھونڈ تو اپنی کسی سہارے میں
عجیب لوگ ہیں، مجبوریاں خریدتے ہیں
مگر یہ طے ہے کہ رہتے ہیں وہ خسارے میں
اک آئنے سے بھی نازک ہے کارِ اہلِ جہاں
ہوا کہ رہتی نہیں ہے کسی غبارے میں
کسے خبر تھی کہ جنگل کو راکھ کر دے گا
عجیب آگ چھپی تھی اس اک شرارے میں
انہیں خبر بھی نہیں تھی کہ مر رہے ہیں خود
وہ سعدؔ غرق تھے ایسے کسی نظارے میں
٭٭٭