جو ہڈیوں سے مری بام و در بناتا ہے
وہ میرے دل میں کہاں اپنا گھر بناتا ہے
وہ میرے دل میں کہاں اپنا گھر بناتا ہے
یہ سوچ کر کہ کسی روز جھک ہی جائے گا
وہ میرے کاندھوں پہ ہر روز سر بناتا ہے
مرا وجود قفس میں پڑا ہے ٹوٹا ہوا
یہ کون پھر بھی مرے بال و پر بناتا ہے
اسی کی شامتِ اعمال ہے سمجھ لینا
جسے تو پہلے پہل معتبر بناتا ہے
وہ خار بن کے کھٹکتا ہے میری آنکھوں میں
مرا عدو جسے نورِ نظر بناتا ہے
یہ رات کیا ہے فقط آفتاب اوجھل ہے
ذرا ٹھہر، یہ ابھی اک سحر بناتا ہے
عجیب شعبدہ بازی ہے اس کے ہاتھوں میں
جو میری آنکھ میں شمس و قمر بناتا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment