قامتِزیب
لکھوں میں کس طرح اس قامتِ زیبا کی رعنائی
جو مجھ پر کھول دیتی ہے مرے اندر کی پہنائی
سرِ بزمِ تصور جب بھی اس پیکر کی یاد آئی
سماعت جاگ اٹھّی ہے نکھر اٹھّی ہے بینائی
کروں زنجیر کیسے ان نگاہوں کی نواؤں کو
ادائے جنبشِ لب کو تبسم کی ضیاؤں کو
میں اس کی انگلیوں کے لمس کی حدّت کو کیا لکھوں
نفس کی آنچ سے منسوب اس لذّت کو کیا لکھوں
ہنسی کو کیا کہوں ، گفتار کو لکھوں تو کیا لکھوں
میں اس کے ابروئے خمدار کو لکھوں تو کیا لکھوں
میں اس زلفِ سیہ کو ابرا سے تشبیہ کیسے دوں
گھٹا کو مرتبہ بخشوں اسے ترجیح کیسے دوں
تبسّم ریز ہونٹوں کو متاعِ خواب میں لکھوں
میں اس آہنگ کو کیا نام دوں کس باب میں لکھوں
صراحی سے بھلا تشبیہ کیوں دوں اس کی گردن کو
کروں کم حیثیت آخر میں کیوں فن کار کے فن کو
لکھوں کس برگِ گُل پر نکہت و آہنگ کی باتیں
کروں کس پھول سے اس عارضِ خوش رنگ کی باتیں
میں اس کی نقشِ پا کو سایۂ گُل لکھ نہیں سکتا
جو سنبل سے ہے افضل اس کو سنبل لکھ نہیں سکتا
میں اس کی چوڑیوں کی صوت کو عنوان کیا دیتا
جو خود پہچان ہے اپنی اسے پہچان کیا دیتا
حنائی انگلیوں کی کب کوئی تمثیل ممکن ہے
خیالی بام و در سے کیا کوئی تکمیل ممکن ہے
میں کیوں اس پیرہن کو صورتِ رشکِ چمن لکھوں
بھلا اس سانس کی خوشبو کو کیوں مشکِ ختن لکھوں
نظر کی جوت سے انفاس کو چھونے کی باتیں ہیں
یہ سب احساس سے احساس کو چھونے کی باتیں ہیں
اسے یکتائی حاصل ہے ابھی تک اپنی وحدت میں
تقابل کے لیے منظر نہیں ہے حسنِ فطرت میں
میں خوشبو کی حرارت لفظ میں تحریر کیا کرتا
خطوطِ خال و خد قرطاس پر تصویر کیا کرتا
حیا کا رنگ اس کا عشوہ انداز کیا لکھتا
مُروّج حرف سے راز اس کا ناز کیا لکھتا
گہر، شبنم، شفق، جگنو، ستارے ، آبجو، افشاں
چمن، رنگِ حنا، دامانِ گُل، کھلتی ہوئی کلیاں
تبسّم، نکہت و نغمہ، لطافت، آئینہ، جھرنا
یہ سب الفاظ اس کے حسن کے آگے ہیں بے معنیٰ
میں ان بے نور لفظوں سے کشیدوں روشنی کیسے
میں ان حرفوں سے لکھوں زندگی کو زندگی کیسے
سوا اس کے حسن کی تفہیم کی بس ایک صورت ہے
نئے الفاظ کی تشکیل اب میری ضرورت ہے
نئے لفظوں سے اب اس حسن کو زنجیر کرنا ہے
بہ اندازِ دگر اس خال و خد میں رنگ بھرنا ہے
مگر یہ سوچ کر کچھ مضمحل سا آج یہ دل ہے
نئے الفاظ کے ابلاغ کا امکان مشکل ہے
No comments:
Post a Comment