وہ ہوائے تند تھی، اس کو خفا ہونا ہی تھا
لیکن اپنے پاؤں پر ہم کو کھڑا ہونا ہی تھا
لیکن اپنے پاؤں پر ہم کو کھڑا ہونا ہی تھا
اس کے آنے سے یقیناً بج اٹھے تھے جلترنگ
اور اس کے بعد ہم کو بے صدا ہونا ہی تھا
صبر ہے اپنی جگہ پر غم کی شدت کیا کریں
اس کے جانے کا ہمیں کچھ رنج سا ہونا ہی تھا
مطمئن سے ہو گئے ہیں ہم بالآخر سوچ کر
اک نہ اک دن ملنے والوں کو جدا ہونا ہی تھا
یہ سزا ہے یا جزا، اِس سے نہیں اُن کو غرض
عشق والوں کو تو اُس کی خاکِ پا ہونا ہی تھا
کس قدر تھی بے خودی، دیوار سے ٹکرا گئے
اُس درِ امکاں پہ ایسا حادثہ ہونا ہی تھا
ہم نے اِس امید پر ہر جھوٹ اُس کا سن لیا
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘
٭٭٭
No comments:
Post a Comment