شوکیس جیسا میرا یہ گھر
مری ماں کی نگاہیں
کئی دن سے
مرے پیکر سے کچھ
سرگوشیاں سے کر رہی تھیں
مسرت سے عجب حالت تھی ان کی
کبھی ممتا بھری آنکھوں میں
جگنو سے چمکتے تھے
کئی دن سے فضا آنگن کی بدلی بدلی
اور کچھ مختلف سے لگ رہی تھی
مرے بابا کی آنکھوں میں بھی کچھ
خوش رنگ منظر تھے
ابھی وہ رات میں بھولی نہیں ہوں
میں اپنی ماں کے سینے سے لگی
لیٹی ہوئی تھی
مرے بالوں میں ان کی انگلیاں تھیں
میں ان کی انگلیوں کے پوروں کی
ساری صدائیں سن رہی تھی
مرے چہرے پہ
ان کی خوش نظر آنکھوں کے لہجے کی ضیائیں تھیں
جو خاموشی سے میرے کان میں کچھ کہہ رہی تھیں
نہ ماں کے لب ہلے تھے اور نہ میرے
مگر وہ بات مجھ سے کر رہی تھیں
میں اک اک بات ان کی سن رہی تھی
مرے احساس کی ساری صدائیں
مری ماں کی
رگِ احساس سے ٹکرا رہی تھیں
وہ باتیں
قربتوں کے ٹوٹنے کی اک کہانی تھی
مرا وہ ہاتھ
جو بچپن سے ان کے ہاتھ میں تھا
مرے اس ہاتھ کی ساری لکیروں پر
مری ماں اب کسی کا نام لکھنا چاہتی تھیں
جسے سن کر
مرے چہرے پہ شاید
خوف کا سایہ سا لہرایا
مرے احساس کے جلتے ہوئے
صحرا کے دامن پر
مری آنکھوں سے
کچھ نا دید آنسو
اس طرح ٹپکے
کہ جس کے چھن سے بجنے کی صدا
مری ماں کی سماعت تک بھی پہنچی
مرے آنسو کی یہ آوازِ گریہ
بھلا کیسے نہ ان کانوں تک آتی
کہ وہ خود بھی کبھی بیٹی رہی ہیں
پھر اس کے بعد تو وہ
مختلف سی ماں نظر آئیں
مرے اس خوف کے سائے کو
کم کرنے کی خواہش میں
مرے ماں باپ نے پھر سے مجھے
معصوم سی بچی بنا ڈالا
جسے دیکھو
کھلونے دے کے بہلا نے لگا مجھ کو
بہن کہتی مری باجی تو
اس جوڑے میں
شہزادی لگیں گی
یہ ٹیکا
ان کی پیشانی کو چھوتے ہی
کچھ اس صورت سے دمکے گا
کہ سورج، چاند، تارے
شرم سے چہرہ چھپا لیں گے
کہیں سے یہ صدا آتی
یہ کنگن، چوڑیاں ، یہ ہار، یہ جھمکے کی جوڑی
یہ سب سونے کے زیور
تکلم آشنا ہو جائیں گے
گڑیا سے مل کر
مجھے کچھ دن سے اس گھر پر
کھلونوں کی دکانوں کا گماں ہونے لگا ہے
کسی سی کیا کہوں
اور کیا کوئی اس بات کو سمجھے
کھلونے پھر کھلونے ہیں
یہ ہر دکھ کی دوا تو ہو نہیں سکتے
مرے اندر جو لڑکی رو رہی ہے
وہ نوحہ جومرا دل پڑھ رہا ہے
کھلوں سے بھرا
شوکیس جیسا میرا یہ گھر
مرے دکھ کو ہوائیں دے رہا ہے
مری نظریں کھلونوں کو نہیں
خلا کی وسعتوں کو تک رہی ہیں
مری آنکھیں مسلسل
گمشدہ اس نیند کو
آواز پر آواز دیتی جا رہی ہیں
جو میرے خوف کے سائے نے
میری ماں کی آنکھوں سے
چُرا لی ہے
کوئی وہ نیند میری ماں کو لوٹا دے
مرے سارے کھلونے مجھ سے لے جائے
٭٭٭
مری ماں کی نگاہیں
کئی دن سے
مرے پیکر سے کچھ
سرگوشیاں سے کر رہی تھیں
مسرت سے عجب حالت تھی ان کی
کبھی ممتا بھری آنکھوں میں
جگنو سے چمکتے تھے
کئی دن سے فضا آنگن کی بدلی بدلی
اور کچھ مختلف سے لگ رہی تھی
مرے بابا کی آنکھوں میں بھی کچھ
خوش رنگ منظر تھے
ابھی وہ رات میں بھولی نہیں ہوں
میں اپنی ماں کے سینے سے لگی
لیٹی ہوئی تھی
مرے بالوں میں ان کی انگلیاں تھیں
میں ان کی انگلیوں کے پوروں کی
ساری صدائیں سن رہی تھی
مرے چہرے پہ
ان کی خوش نظر آنکھوں کے لہجے کی ضیائیں تھیں
جو خاموشی سے میرے کان میں کچھ کہہ رہی تھیں
نہ ماں کے لب ہلے تھے اور نہ میرے
مگر وہ بات مجھ سے کر رہی تھیں
میں اک اک بات ان کی سن رہی تھی
مرے احساس کی ساری صدائیں
مری ماں کی
رگِ احساس سے ٹکرا رہی تھیں
وہ باتیں
قربتوں کے ٹوٹنے کی اک کہانی تھی
مرا وہ ہاتھ
جو بچپن سے ان کے ہاتھ میں تھا
مرے اس ہاتھ کی ساری لکیروں پر
مری ماں اب کسی کا نام لکھنا چاہتی تھیں
جسے سن کر
مرے چہرے پہ شاید
خوف کا سایہ سا لہرایا
مرے احساس کے جلتے ہوئے
صحرا کے دامن پر
مری آنکھوں سے
کچھ نا دید آنسو
اس طرح ٹپکے
کہ جس کے چھن سے بجنے کی صدا
مری ماں کی سماعت تک بھی پہنچی
مرے آنسو کی یہ آوازِ گریہ
بھلا کیسے نہ ان کانوں تک آتی
کہ وہ خود بھی کبھی بیٹی رہی ہیں
پھر اس کے بعد تو وہ
مختلف سی ماں نظر آئیں
مرے اس خوف کے سائے کو
کم کرنے کی خواہش میں
مرے ماں باپ نے پھر سے مجھے
معصوم سی بچی بنا ڈالا
جسے دیکھو
کھلونے دے کے بہلا نے لگا مجھ کو
بہن کہتی مری باجی تو
اس جوڑے میں
شہزادی لگیں گی
یہ ٹیکا
ان کی پیشانی کو چھوتے ہی
کچھ اس صورت سے دمکے گا
کہ سورج، چاند، تارے
شرم سے چہرہ چھپا لیں گے
کہیں سے یہ صدا آتی
یہ کنگن، چوڑیاں ، یہ ہار، یہ جھمکے کی جوڑی
یہ سب سونے کے زیور
تکلم آشنا ہو جائیں گے
گڑیا سے مل کر
مجھے کچھ دن سے اس گھر پر
کھلونوں کی دکانوں کا گماں ہونے لگا ہے
کسی سی کیا کہوں
اور کیا کوئی اس بات کو سمجھے
کھلونے پھر کھلونے ہیں
یہ ہر دکھ کی دوا تو ہو نہیں سکتے
مرے اندر جو لڑکی رو رہی ہے
وہ نوحہ جومرا دل پڑھ رہا ہے
کھلوں سے بھرا
شوکیس جیسا میرا یہ گھر
مرے دکھ کو ہوائیں دے رہا ہے
مری نظریں کھلونوں کو نہیں
خلا کی وسعتوں کو تک رہی ہیں
مری آنکھیں مسلسل
گمشدہ اس نیند کو
آواز پر آواز دیتی جا رہی ہیں
جو میرے خوف کے سائے نے
میری ماں کی آنکھوں سے
چُرا لی ہے
کوئی وہ نیند میری ماں کو لوٹا دے
مرے سارے کھلونے مجھ سے لے جائے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment