عروج اپنا ترے نام انتساب کیا
یہ کم نہیں تجھے لاکھوں میں انتخاب کیا
یہ کم نہیں تجھے لاکھوں میں انتخاب کیا
بچشمِ نم تجھے سوچاہے رات دن ہم نے
طلب نے اپنی تجھے خار سے گلاب کیا
اب اس کے بعد بتاؤ عروج کیا ہو گا
کہ ہم نے ایک ستارے کو آفتاب کیا
حسین خواب کی صورت تھی زندگی اپنی
کہ زندگی کو ہماری تجھی نے خواب کیا
محبتوں کا تسلسل عروج پر پہنچا
کہ پیار ہم نے وطن سے بھی بے حساب کیا
زبانِ خلق پہ پہنچے ہیں سعدؔ کیسے ہم
خدا نے شعر کو اپنی جو باریاب کیا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment