نے شوق کا حاصل ہے
حسب عادت
جانے کب سے
کھیل رہے تھے ہم آپس میں
موتی کے ان دانوں سے
جن دانوں کو باندھ رکھا تھا
اک کمزور سے دھاگے نے
وہ دھاگہ
جس دھاگے پر ہے
صدیوں سے آسیب کا سایہ
جیسے کوئی
خزاں رسیدہ زر دسا پتہ
بے وقعت اور بے مایہ
کھیل ہی کھیل میں
جانے کیسے ، جانے کیوں کر
پھر وہ مالا ٹوٹ گئی
سورج، چاند، ستارے جیسے
سارے موتی بکھر گئے
موتی کیا بکھرے کہ
ہمارے خواب ہی سارے بکھر گئے
سچے موتی کے وہ دانے
اک دوجے سے دور ہوئے
آنکھ کے تارے
خاک بسر ہو جانے پر مجبور ہوئے
دیر تلک آنکھوں نے دیکھا
حسرت سے اس منظر کو
کچھ موتی کیچڑ میں پڑے تھے
کچھ مٹی
کچھ جھاڑی میں
سب کے چہرے اُترے اُترے
سب کے دامن خاک آلود
آب و تاب کی اک اک لَو پر
تیز ہوا کی ہے یلغار
سورج، چاند، ستارے
سب کے کھو جانے کے ہیں آثار
وائے حسرت
واہ رے اپنی کم نظری
سچے موتی کے دانوں کو
ڈھونڈ نے اور چُننے سے قبل
اپنی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں
اس کمزور سے دھاگے کو
جس دھاگے میں
خواب پرونے کی خواہش
لاحاصل ہے
لیکن یہ دل آج بھی کارِ لاحاصل پہ مائل ہے
اب تک یہ لاحاصل کوشش
اپنے شوق کا حاصل ہے
٭٭٭
حسب عادت
جانے کب سے
کھیل رہے تھے ہم آپس میں
موتی کے ان دانوں سے
جن دانوں کو باندھ رکھا تھا
اک کمزور سے دھاگے نے
وہ دھاگہ
جس دھاگے پر ہے
صدیوں سے آسیب کا سایہ
جیسے کوئی
خزاں رسیدہ زر دسا پتہ
بے وقعت اور بے مایہ
کھیل ہی کھیل میں
جانے کیسے ، جانے کیوں کر
پھر وہ مالا ٹوٹ گئی
سورج، چاند، ستارے جیسے
سارے موتی بکھر گئے
موتی کیا بکھرے کہ
ہمارے خواب ہی سارے بکھر گئے
سچے موتی کے وہ دانے
اک دوجے سے دور ہوئے
آنکھ کے تارے
خاک بسر ہو جانے پر مجبور ہوئے
دیر تلک آنکھوں نے دیکھا
حسرت سے اس منظر کو
کچھ موتی کیچڑ میں پڑے تھے
کچھ مٹی
کچھ جھاڑی میں
سب کے چہرے اُترے اُترے
سب کے دامن خاک آلود
آب و تاب کی اک اک لَو پر
تیز ہوا کی ہے یلغار
سورج، چاند، ستارے
سب کے کھو جانے کے ہیں آثار
وائے حسرت
واہ رے اپنی کم نظری
سچے موتی کے دانوں کو
ڈھونڈ نے اور چُننے سے قبل
اپنی آنکھیں ڈھونڈ رہی ہیں
اس کمزور سے دھاگے کو
جس دھاگے میں
خواب پرونے کی خواہش
لاحاصل ہے
لیکن یہ دل آج بھی کارِ لاحاصل پہ مائل ہے
اب تک یہ لاحاصل کوشش
اپنے شوق کا حاصل ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment