نہیں ہے یوں کہ مقدّر پہ اپنے پچھتائیں
بساط بھر ہی سہی، دشمنوں سے لڑ جائیں
بساط بھر ہی سہی، دشمنوں سے لڑ جائیں
لہو لہو ہے وطن اور ہمیں پکارتا ہے
اُٹھو کہ موجِ حوادث سے آج ٹکرائیں
خزاں بہار کے سارے نشاں مٹا دے گی
’’چلو کہ بکھری ہوئی پتیاں ہی دیکھ آئیں،،
بنا دیا ہے تماشا ہمیں تو اپنوں نے
مگر یہ وقت نہیں ہے کہ زخم سہلائیں
وہی ہیں عشق کے وارث، وہی ہیں پروانے
جلے جو شمع تو خود کو نہ وہ بچا پائیں
گلوں کو آگ لگی جب تو جل بجھی خواہش
کہ مثلِ بادِ سَحر باغ باغ مہکائیں
شجر شجر پہ ہے آکاس بیل چمٹی ہوئی
کہاں سے سعدؔ بھلا اِن پہ پھول پھل آئیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment