زمیں پہ بیٹھ کے ہم آسماں کا سوچتے ہیں
جہاں پہنچ نہیں سکتے، وہاں کا سوچتے ہیں
جہاں پہنچ نہیں سکتے، وہاں کا سوچتے ہیں
جو اپنے آپ سے غافل نہیں کسی لمحے
وہ ایک زندگیِ جاوداں کا سوچتے ہیں
جو اپنی بات پہ قائم، نہ اپنے وعدے پر
وہ خود غرض تو فقط اپنی جاں کا سوچتے ہیں
جو پست لوگ ہیں خود سے نکل نہیں پاتے
بڑے وہی ہیں جو سارے جہاں کا سوچتے ہیں
ہزار برق گرے اور آندھیاں آئیں
پرندے پھر بھی نئے آشیاں کا سوچتے ہیں
بکھر چکے ہیں تو کیا حوصلہ نہیں ہارے
چلو کہ بیٹھ کے اک کارواں کا سوچتے ہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment