رنگ ہائے ذات
سفر کی ابتدا ہی سے
عجب انداز کی اک تشنگی
آنکھوں میں رقصاں ہے
یہ کیسی آرزو
انگڑائیاں لیتی ہے سانسوں میں
بہ ہر لمحہ یہ خواہش
کھِلتے جائیں ، سارے روزن، سارے در اور ساری سچائی تسلسل سے
یہ دریا مجھ پہ کھُل جائے
سمندر مجھ پہ ہو افشا
ردائے دشت کا
ایک ایک زرہ میرا محرم ہو
پہاڑوں کی بلندی
سرنگوں ہو میرے قدموں پر
یہ فہم و فکر سے بھی ماورا
آفاق کی وسعت
حصارِ کنجِ تنہائی کے
دامن میں سمٹ آئے
عروسِ کہکشاں
میری ہتھیلی پر ہو خیمہ زن
خلاصہ یہ
کہ بزمِ عالمِ امکاں
مری مٹھی میں آ جائے
سرِ تشنہ نگاہی
آج یہ عقدہ کھلا مجھ پر
مری آرزوؤں کے پسِ پردہ
اگر کچھ ہے تو بس یہ ہے
میں اپنے آپ پہ کھُل جاؤں
اپنے آپ کو دیکھوں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment