یہ دل اب رنگ دکھلانے لگا ہے
ہمیں یادوں سے بہکانے لگا ہے
ہمیں یادوں سے بہکانے لگا ہے
چراغِ رہگزر ہوتا ہوا پل
اسی کے نقش چمکانے لگا ہے
سخن کیسا، زمیں کو موسمِ گل
قبا پھولوں کی پہنانے لگا ہے
ہر اک صورت میں گل کانٹا ہے ہم کو
کِھلا ہے یا کہ مرجھانے لگا ہے
وہی جو ابر کی صورت ملا تھا
وہی تو پیاس بھڑکانے لگا ہے
پریشاں تو ہوا ہے سنگدل بھی
کہ اشک آخر جگہ پانے لگا ہے
اڑے گی ریت ساحل پر یقیناً
کہ دریا اس سے کترانے لگا ہے
بچھڑ کر کوئی آسودہ رہا ہے
بکھر کر کوئی پچھتانے لگا ہے
کبھی اک بھول ہم سے بھی ہوئی تھی
ہمیں بھی کوئی یاد آنے لگا ہے
نہیں ہے سعدؔ وہ اپنا نہیں ہے
ہمیں یہ وہم بھی کھانے لگا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment