اجنبی بن کے گزر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم محبت سے مکر جاتے تو اچھا ہوتا
جن کو تعبیر میسر نہیں اس دنیا میں
وہ حسیں خواب جو مر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو سب پھول نظر آتے ہیں بے مصرف سے
گر تری رہ میں بکھر جاتے تو اچھا ہوتا
ان ستاروں کے چمکنے سے بھی کیا حاصل ہے
ہاں، تری مانگ کو بھر جاتے تو اچھا ہوتا
ابرِ باراں کے سبھی قطرے گہر ہیں لیکن
تیری آنکھوں میں اُتر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کو مارا ہے فقط تیز روی نے اپنی
سانس لینے کو ٹھہر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم کبھی شام سے آگے نہ گئے تیرے لیے
شام سے تا بہ سحر جاتے تو اچھا ہوتا
ہم نے جو پھول چنے، کام نہ آئے اپنے
تیری دہلیز پہ دھر جاتے تو اچھا ہوتا
کس لیے سعدؔ مقدر کے بھروسے پہ رہے
ہم اگر خود ہی سنور جاتے تو اچھا ہوتا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment