ایک جگنو ہی سہی، ایک ستارا ہی سہی
شبِ تیرہ میں اجالوں کا اشارا ہی سہی
شبِ تیرہ میں اجالوں کا اشارا ہی سہی
اک نہ اک روز اُتر جائیں گے ہم موجوں میں
اک سمندر نہ سہی اس کا کنارا ہی سہی
ہیں ابھی شہر میں ناموس پہ مرنے والے
جینے والوں کے لیے اتنا سہارا ہی سہی
جب یہ طے ہے کہ ہمیں جانا ہے منزل کی طرف
ایک کوشش ہے اکارت تو دوبارہ ہی سہی
اک تغیر تو ضروری ہے، کسی سمت بھی ہو
کچھ منافع جو نہیں ہے تو خسارا ہی سہی
ہم کو جلنا ہے بہر رنگ سحر ہونے تک
اک تماشا ہی سہی، ایک نظارا ہی سہی
اب کے ایسا بھی نہیں ہے کہ گنوا دیں سب کچھ
ہم کو حکمت میں کوئی بات گوارا ہی سہی
سعدؔ ہم ساتھ ہیں تیرے کسی مجبوری سے
کچھ نہیں ہے تو کوئی درد کا مارا ہی سہی
No comments:
Post a Comment