Tuesday, July 16, 2013

aik wasat ki talab hai meri benai ko

ایک وسعت کی طلب ہے مری بینائی کو
جس میں دیکھوں درِ افلاک جبیں سائی کو 

کس قدر معجزہ آمیز تھی چاہت اس کی
ہم کہ شہرت ہی سمجھتے رہے رسوائی کو 

اک تنِ خشک میں شعلہ سا لپکتا دیکھا
پھر ہوا آگ لگاتی گئی شہنائی کو 

موت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا تھا
وہ جو تیار نہیں تھا ذرا پسپائی کو 

میری آنکھوں سے عیاں ہے مرے دل کی حالت
 جمنے دیتا ہی نہیں آبِ رواں کائی کو 

اپنے اشعار تو لہروں کی طرح ہوتے ہیں
کون جانے گا سمندر بھری گہرائی کو
٭٭٭

No comments:

Popular Posts