ایک وسعت کی طلب ہے مری بینائی کو
جس میں دیکھوں درِ افلاک جبیں سائی کو
جس میں دیکھوں درِ افلاک جبیں سائی کو
کس قدر معجزہ آمیز تھی چاہت اس کی
ہم کہ شہرت ہی سمجھتے رہے رسوائی کو
اک تنِ خشک میں شعلہ سا لپکتا دیکھا
پھر ہوا آگ لگاتی گئی شہنائی کو
موت کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا تھا
وہ جو تیار نہیں تھا ذرا پسپائی کو
میری آنکھوں سے عیاں ہے مرے دل کی حالت
جمنے دیتا ہی نہیں آبِ رواں کائی کو
اپنے اشعار تو لہروں کی طرح ہوتے ہیں
کون جانے گا سمندر بھری گہرائی کو
٭٭٭
No comments:
Post a Comment