کہنے کو اپنے پاس کوئی کام بھی نہیں
لیکن ہمارے بخت میں آرام بھی نہیں
لیکن ہمارے بخت میں آرام بھی نہیں
اے دوست کیا بتائیں محبت کی داستاں
آغاز بھی نہیں، کوئی انجام بھی نہیں
ہم جانتے ہیں اڑتے ہی کیا ہو گا اپنے ساتھ
گرچہ ہمارے سامنے اک دام بھی نہیں
ہم نے حقیقتوں سے اٹھایا ہے اپنا خواب
ہے گر خیال اس کا تو کچھ خام بھی نہیں
اپنے لیے جو فاصلہ کوسوں پہ ہے محیط
اس بے وفا کے واسطے دو گام بھی نہیں
چمکے گا ماہتاب کہاں، کچھ خبر نہیں
اب سامنے تو اپنے کوئی بام بھی نہیں
اتنے بھی خوش نصیب نہیں، سب غلط ہے یہ
حرفِ دعا تو چھوڑیے، دشنام بھی نہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment