سانحہ در سانحہ ہر واقعہ ہونا ہی تھا
جس طرح ہم کر رہے تھے، اس طرح ہونا ہی تھا
جس طرح ہم کر رہے تھے، اس طرح ہونا ہی تھا
جن کے خوں میں تھی تمازت، سرخرو ہوتے گئے
فرض تھا جو اہلِ حق پر، وہ ادا ہونا ہی تھا
اپنی ذلت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو گی بھلا
اُس نے جو کچھ کر دیا، ہم نے کہا، ہونا ہی تھا
اپنی اپنی جی رہے ہیں لوگ اپنے شہر میں
جس قدر تھی بے حسی، یہ حادثہ ہونا ہی تھا
کرچیوں میں بٹ گیا میں، ہاتھ زخمی ہو گیا
آئنے میں خود سے میرا سامنا ہونا ہی تھا
ایک جانب ہیں عوام اور اک طرف قاتل پرست
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘
کیا بسنت آئی، کٹیں بچوں کی پھر سے گردنیں
شوق کی قیمت پہ ایسا سانحہ ہونا ہی تھا
سعدؔ جو کچھ ہو رہا ہے شامتِ اعمال ہے
’’اک نہ اک دن جھوٹ سچ کا فیصلہ ہونا ہی تھا‘‘
٭٭٭
No comments:
Post a Comment