کبھی جی چاہتا ہے
ہم اپنی ماہیت پر
سوچ کے حیران ہوتے ہیں
کبھی پربت کا قامت
ہیچ لگتا ہے نگاہوں کو
کبھی ذرّے کے سائے میں
پناہیں ڈھونڈتا ہے جسم
کبھی مٹھی میں ہفت افلاک کو ہم قید کرتے ہیں
کبھی اک پھول کا سایہ اٹھائے سے نہیں اٹھتا
کبھی سینے کا طوفاں
روند دیتا ہے سمندر کو
کبھی اک بوند پانی میں
سراپا ڈوب جاتا ہے
کبھی دن کے اُجالے میں نظر آتا نہیں کچھ بھی
کبھی گھُپ تیرگی میں
نور بکھراتا ہے یہ عالم
کبھی چہرہ بہ چہرہ عکسِ تیرہ رقص کرتا ہے
کبھی منظر بہ منظر حُسن کی رعنائی ہوتی ہے
کبھی یہ خارجی دنیا
بڑی خوش رنگ لگتی ہے
کبھی ہم چاہتے ہیں
کاش یہ آنکھیں نہیں ہوتیں
یہ کافر دل نہیں ہوتا
کبھی ارمان کی نکہت دلوں کو گدگداتی ہے
اَنی بن کر کبھی قلب و نظر میں خواب چبھتے ہیں
کبھی صحنِ چمن کے نام سے وحشت سے ہوتی ہے
کبھی صر صر تکلم کرتی ہے خوشبو کے لہجے میں
کبھی پاتے ہیں خود کو
وسعتِ امکاں سے بھی آگے
کبھی جیسے مقّید ہوں
کسی چھوٹے سے زنداں میں
کبھی اک ہلکی آہٹ پر سراپا کانپ اُٹھتا ہے
کبھی جی چاہتا ہے
بارشِ سنگِ ملامت ٹوٹ کے برسے
اور اس بارش میں ہم تا دیر
گھنگھرو باندھ کے ناچیں
٭٭٭
ہم اپنی ماہیت پر
سوچ کے حیران ہوتے ہیں
کبھی پربت کا قامت
ہیچ لگتا ہے نگاہوں کو
کبھی ذرّے کے سائے میں
پناہیں ڈھونڈتا ہے جسم
کبھی مٹھی میں ہفت افلاک کو ہم قید کرتے ہیں
کبھی اک پھول کا سایہ اٹھائے سے نہیں اٹھتا
کبھی سینے کا طوفاں
روند دیتا ہے سمندر کو
کبھی اک بوند پانی میں
سراپا ڈوب جاتا ہے
کبھی دن کے اُجالے میں نظر آتا نہیں کچھ بھی
کبھی گھُپ تیرگی میں
نور بکھراتا ہے یہ عالم
کبھی چہرہ بہ چہرہ عکسِ تیرہ رقص کرتا ہے
کبھی منظر بہ منظر حُسن کی رعنائی ہوتی ہے
کبھی یہ خارجی دنیا
بڑی خوش رنگ لگتی ہے
کبھی ہم چاہتے ہیں
کاش یہ آنکھیں نہیں ہوتیں
یہ کافر دل نہیں ہوتا
کبھی ارمان کی نکہت دلوں کو گدگداتی ہے
اَنی بن کر کبھی قلب و نظر میں خواب چبھتے ہیں
کبھی صحنِ چمن کے نام سے وحشت سے ہوتی ہے
کبھی صر صر تکلم کرتی ہے خوشبو کے لہجے میں
کبھی پاتے ہیں خود کو
وسعتِ امکاں سے بھی آگے
کبھی جیسے مقّید ہوں
کسی چھوٹے سے زنداں میں
کبھی اک ہلکی آہٹ پر سراپا کانپ اُٹھتا ہے
کبھی جی چاہتا ہے
بارشِ سنگِ ملامت ٹوٹ کے برسے
اور اس بارش میں ہم تا دیر
گھنگھرو باندھ کے ناچیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment