بنامِ عدل مساوات چھوڑ جائے گا
ہمارا عہد سوالات چھوڑ جائے گا
ہمارا عہد سوالات چھوڑ جائے گا
جو روشنی نہ رہے گی تو کیا کرو گے تم
تمہارا سایہ تلک ساتھ چھوڑ جائے گا
تم آفتاب کی چاہے ہزار پوجا کرو
یہ دن گزرتے ہی اک رات چھوڑ جائے گا
بکھر تو جائے گا اک پھول پر بکھرتے ہی
ہوا کے دوش پہ اک بات چھوڑ جائے گا
ذرا سنبھل کے مری جان یہ زمانہ ہے
سرِ لبادہ نشانات چھوڑ جائے گا
کچھ اس طرح کا ہے ناتا مرا زمانے سے
ہوا کا جھونکا کہیں پات چھوڑ جائے گا
کسی کے ساتھ چلو سعدؔ پر یہ دھیان رہے
کسی بھی وقت کوئی ہاتھ چھوڑ جائے گا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment