آج میں اک نظم لکھوں گا
مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
کسی کی یاد لے آئی تھی
پھولوں کی نمائش میں
مرے قدموں کی آہٹ سنتے ہی
صحنِ گلستاں میں
لبوں کے ذکر، عارض کی کہانی کا
اک ایسا سلسلہ چھیڑا تھا پھولوں نے
کہ جس کو نظم کرنے سے
فضائے وقت قاصر تھی
چلی تھی بات ان آنکھوں کی چکھ ایسے تناظر میں
کہ خوشبو نے ٹھہر کر
چشمِ نرگس کے لیے بوسے
سراپا گوش بر آواز تھیں کلیاں بہ ہر جانب
تبسم ریز غنچے عالمِ حیرت میں غلطاں تھے
گلوں کو اس طرح
انگڑائیاں لیتے ہوئے دیکھا
تو موسم کی رگوں میں
بجلیاں جیسے اُتر آئیں
کسی نادیدہ حدت نے دیا مہمیز آنچل کو
نکھرتی شام نے چھیڑا ایکا یک ذکر گیسو کا
بہ ہر جانب شبستاں میں
کسی کی بات چل نکلی
میسر تھی فضا کو رنگ و خوشبو کی فراوانی
مگر وہ قامتِ زیبا
نہ بن پایا کسی سے بھی
مجھے اس خال و خط کو
آج شاید نظم کرنا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
٭٭٭
مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
کسی کی یاد لے آئی تھی
پھولوں کی نمائش میں
مرے قدموں کی آہٹ سنتے ہی
صحنِ گلستاں میں
لبوں کے ذکر، عارض کی کہانی کا
اک ایسا سلسلہ چھیڑا تھا پھولوں نے
کہ جس کو نظم کرنے سے
فضائے وقت قاصر تھی
چلی تھی بات ان آنکھوں کی چکھ ایسے تناظر میں
کہ خوشبو نے ٹھہر کر
چشمِ نرگس کے لیے بوسے
سراپا گوش بر آواز تھیں کلیاں بہ ہر جانب
تبسم ریز غنچے عالمِ حیرت میں غلطاں تھے
گلوں کو اس طرح
انگڑائیاں لیتے ہوئے دیکھا
تو موسم کی رگوں میں
بجلیاں جیسے اُتر آئیں
کسی نادیدہ حدت نے دیا مہمیز آنچل کو
نکھرتی شام نے چھیڑا ایکا یک ذکر گیسو کا
بہ ہر جانب شبستاں میں
کسی کی بات چل نکلی
میسر تھی فضا کو رنگ و خوشبو کی فراوانی
مگر وہ قامتِ زیبا
نہ بن پایا کسی سے بھی
مجھے اس خال و خط کو
آج شاید نظم کرنا ہے
مجھے لگتا ہے جیسے
آج میں اک نظم لکھوں گا
٭٭٭
No comments:
Post a Comment