Tuesday, July 16, 2013

phir wohi ranj-e-nadamat hai pereshani hai

پھر وہی رنجِ ندامت ہے، پریشانی ہے
 پھر وہی شعبدہ بازوں کی فراوانی ہے

پھر وہی بدلے ہوئے چہرے مرے سامنے ہیں
پھر سرِ آئنہ پھیلی ہوئی حیرانی ہے  

جن کے دامن میں بہار آئی دعاؤں سے مری
 وہ سمجھتے ہیں مرے بخت میں ویرانی ہے

جو بھی حاکم ہوا میرا، ہوا غیروں کا غلام
 یہی جمہور ہے اپنا، یہی سلطانی ہے

امتحاں اس کو کہیں ہم کہ مقدر اپنا
 جبر کی رات ہے اور اپنی گراں جانی ہے

آنے والوں کے لیے چھوڑ رہے ہیں کیا کچھ
 بھوک ہے، ننگ ہے اور بے سروسامانی ہے

نا امیدی بھی نہیں مجھ کو کہ ایماں ہے مرا
 اک نہ اک روز قیامت کی گھڑی آنی ہے

نہ کوئی چور ہے ان میں، نہ لٹیرا کوئی
 بہرِ قانون یہی حقِ سلیمانی ہے

سعدؔ کیا ہو گا اثر ان پہ تری باتوں کا
ان کی آنکھوں میں حیا ہے، نہ ذرا پانی ہے
٭٭٭

No comments:

Popular Posts