کھلونے اب مجھے پوئم سناتے ہیں
کھلونوں کی دکانیں
اور وہ شوکیس میں رکھے ہوئے
سارے کھلونے
جنھیں بچپن میں
میں تا دیر تکتا رہتا تھا اکثر
بسا اوقات
ان سے گفتگو ہوتی تھی میری
میں ان سے
اور وہ مجھ سے
کچھ اس درجہ شناسا تھے
کہ ہم اک دوسرے سے دور رہ کر بھی
کیا کر تے تھے باتیں
اور ہم اک دوسرے کا ہاتھ تھا مے
گھوما کرتے تھے
کبھی پھلواری کی رنگین بستی میں
کبھی بازاروں کی ہنستی فضاؤں میں
کبھی اک ساتھ ملک کر ہم
اڑا کرتے تھے
بادل کی رفاقت میں
کبھی تتلی پکڑے تھے
کبھی جگنو کے پیچھے
بھاگتے رہتے تھے راتوں کو
بسا اوقات تو
خوابوں میں بھی ان سے ملا کرتا تھا میں
کھلونے
میرے قطرہ ہائے خون میں
یوں کیا کرتے تھے گردش
کہ میں ان کے تبسم کا اجلا دیکھتا تھا
صحنِ گلشن کی فضاؤں میں
کلی کے پیرہن میں
پھول کے طرزِ تکلم میں
شفق کے رنگ میں
افلاک کے ہنستے ستاروں میں
رفاقت آج بھی قائم ہے میری
ان کھلوں سے
میں اب بھی کھیلتا رہتا ہوں ان سے
مگر اب وہ کھلونے
دکانوں سے نکل کر
آ گئے ہیں
ہمارے آنگنوں میں
ہماری گود میں
نرسری اسکول کے
خوش رنگ منظر میں
بصارت کی ضیا میں
ہماری آرزوؤں
اور تمناؤں کے روشن استعاروں میں
مہکتے مسکراتے
خواب کے تازہ شماروں میں
کھلونوں کے لبوں سے
واقعی اب پھول جھڑتے ہیں
یہ سچ مچ جگنوؤں اور تتلیوں کے ساتھ
پہروں رقص کرتے ہیں
میں سچ مچ ان کو سینے سے لگا کر
بادلوں کے ساتھ اُڑتا ہوں
کھلونے اب مجھے پوئم سنا تے ہیں
ترانہ گنگناتے ہیں
مرے خوابوں کو
ساون رُت میں یہ جھولا جھلاتے ہیں
کھلوں کو
حرارت زندگی کی بخش دی ہے
میرے خالق نے
٭٭٭٭٭
کھلونوں کی دکانیں
اور وہ شوکیس میں رکھے ہوئے
سارے کھلونے
جنھیں بچپن میں
میں تا دیر تکتا رہتا تھا اکثر
بسا اوقات
ان سے گفتگو ہوتی تھی میری
میں ان سے
اور وہ مجھ سے
کچھ اس درجہ شناسا تھے
کہ ہم اک دوسرے سے دور رہ کر بھی
کیا کر تے تھے باتیں
اور ہم اک دوسرے کا ہاتھ تھا مے
گھوما کرتے تھے
کبھی پھلواری کی رنگین بستی میں
کبھی بازاروں کی ہنستی فضاؤں میں
کبھی اک ساتھ ملک کر ہم
اڑا کرتے تھے
بادل کی رفاقت میں
کبھی تتلی پکڑے تھے
کبھی جگنو کے پیچھے
بھاگتے رہتے تھے راتوں کو
بسا اوقات تو
خوابوں میں بھی ان سے ملا کرتا تھا میں
کھلونے
میرے قطرہ ہائے خون میں
یوں کیا کرتے تھے گردش
کہ میں ان کے تبسم کا اجلا دیکھتا تھا
صحنِ گلشن کی فضاؤں میں
کلی کے پیرہن میں
پھول کے طرزِ تکلم میں
شفق کے رنگ میں
افلاک کے ہنستے ستاروں میں
رفاقت آج بھی قائم ہے میری
ان کھلوں سے
میں اب بھی کھیلتا رہتا ہوں ان سے
مگر اب وہ کھلونے
دکانوں سے نکل کر
آ گئے ہیں
ہمارے آنگنوں میں
ہماری گود میں
نرسری اسکول کے
خوش رنگ منظر میں
بصارت کی ضیا میں
ہماری آرزوؤں
اور تمناؤں کے روشن استعاروں میں
مہکتے مسکراتے
خواب کے تازہ شماروں میں
کھلونوں کے لبوں سے
واقعی اب پھول جھڑتے ہیں
یہ سچ مچ جگنوؤں اور تتلیوں کے ساتھ
پہروں رقص کرتے ہیں
میں سچ مچ ان کو سینے سے لگا کر
بادلوں کے ساتھ اُڑتا ہوں
کھلونے اب مجھے پوئم سنا تے ہیں
ترانہ گنگناتے ہیں
مرے خوابوں کو
ساون رُت میں یہ جھولا جھلاتے ہیں
کھلوں کو
حرارت زندگی کی بخش دی ہے
میرے خالق نے
٭٭٭٭٭
No comments:
Post a Comment