میں خواب سے آگے کا سفر مانگتا ہوں
اے کاہکشاں ! راہ گزر مانگتا ہوں
اے کاہکشاں ! راہ گزر مانگتا ہوں
میں شاہ سہی پر ہوں طلبگارِ سخن
خیرات میں مَیں کارِ ہنر مانگتا ہوں
ظلمت سے اجالوں کی توقع کیسی
مجبور ہوں عادت سے، سحر مانگتا ہوں
خواہش ہے مرے دل میں اسے پانے کی
اے دل! میں دعاؤں میں اثر مانگتا ہوں
دیوار کے اس پار بھی جو دیکھ سکے
مولا سے میں ایسی ہی نظر مانگتا ہوں
ان سیپ سی آنکھوں میں سمندر بھی ہے
اے سعدؔ مگر میں تو گہر مانگتا ہوں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment