ایسے لگتا ہے یہی قوم کے غم خوار ہیں بس
رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس
رہنما سارے کے سارے ہی اداکار ہیں بس
ان پہ کیوں کھولتے ہو جنتِ فردوس کے باب
اہلِ دنیا ہیں، یہ دنیا کے طلب گار ہیں بس
اہلِ حق جانتے ہیں عدل کے اثمار ہیں کیا
اہلِ ظلمت پہ یہ اثمار گراں بار ہیں بس
ملک لوٹا ہے مگر پھر بھی معزز ہیں وہ
کیسی مجبوری کہ ہم ان کے طرف دار ہیں بس
ہم وہ بدبخت نہیں چاہتے ہیں اپنوں کو
اور غیروں کی محبت میں گرفتار ہیں بس
کون سا جرم تھا اپنا کہ ملی جس کی سزا
ہم سیہ کار مروت کے سزاوار ہیں بس
٭٭٭
No comments:
Post a Comment