جو میں نے چاہا تھا، ہو جائے، وہ ہوا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جدا تو نہیں
مگر یہ درد مری ذات سے جدا تو نہیں
وہ بے نیاز ہے تم سے تو چھوڑدو اس کو
وہ ایک شخص ہے آخر کوئی خدا تو نہیں
اسی کی روشنی شامل ہے میرے اشکوں میں
جو دیپ اس نے جلایا تھا وہ بجھا تو نہیں
ابھی ارادہ کیا تھا کہ جاں مہک اٹھی
ابھی خیال نے میرے اسے چھوا تو نہیں
یہ سچ تو ہے کہ نہیں عشق پر مجھے قابو
گلہ کیا ہے اگر اس نے یہ، گلہ تو نہیں
وہ جس قدر ہے گریزاں مرے حوالے سے
اسے بتاؤ کہ میں اس قدر برا تو نہیں
٭٭٭
No comments:
Post a Comment