خوف کیوں آئے اجل سے ہم کو
یہ ہے انعام ازل سے ہم کو
یہ ہے انعام ازل سے ہم کو
کیسے رہنا ہے اسی دنیا میں
ہوا تعلیم کنول سے ہم کو
آج کے بعد وہی کل ہو گی
یہی تشویش ہے کل سے ہم کو
پھر درندے ہیں مسلط سر پر
کیا ملا ردّ و بدل سے ہم کو
بس یہی ہے کہ بھلا لگتا ہے
اور کیا تاج محل سے ہم کو
دشت در دشت پھرایا اس نے
عشق تھا یعنی غزل سے ہم کو
وقت بے رنگ نظر آئے گا
وہ نکالے کسی پل سے ہم کو
سعدؔ میں چور ہوں اور چور ہے سعد
کوئی پہچانے عمل سے ہم کو
٭٭٭
No comments:
Post a Comment