جو قدم تک اٹھا نہیں سکتے
دل کے رستوں پہ آ نہیں سکتے
دل کے رستوں پہ آ نہیں سکتے
کیا ضروری ہے یہ بتانا اسے
ہم اسے گر بھلا نہیں سکتے
وہ جو کاغذ کے اک مکان میں ہیں
اک دیا تک جلا نہیں سکتے
وہ زمیں کو بہانہ کرتے ہیں
جو بلندی پہ جا نہیں سکتے
جو پرندے ہوا سے ڈرتے ہیں
وہ پروں کو بچا نہیں سکتے
جانتے ہیں ہم اس قدر، یعنی
حال اپنا سنا نہیں سکتے
سعدؔ اپنا مزاج ایسا ہے
بارِ احساں اٹھا نہیں سکتے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment