Tuesday, July 16, 2013

raakhi

راکھی


مبارک ہو مری ہمزاد
تم نے آج پھر انعام جیتا ہے
تمھاری فتح مندی کا تسلسل
آج تک قائم و دائم ہے
مگر یہ بات بھی سچ ہے کہ تم
گزشتہ آٹھ برسوں میں کبھی اوّل نہیں آئیں
تمھارے ذہن کی وہ روشنی چہر ہے پہ لکھی ہے
جو تم کو ہر قدم پر
منفرد کرتی ہے اوردں سے
تمھارے ہاتھ کو
فن کار جادو میسر ہے
تمھاری انگلیوں میں
زندگی کی وہ حرارت ہے
جو رنگوں کو
تکلم آشنا کر دیتی ہے اکثر
خدا نے تم کو جو آواز دی ہے
اسے کوئل اگر سُن لے
تو اپنی کوک پر شرمائے تا دیر
تمھیں سنتے ہوئے محسوس ہوتا ہے
کہ جیسے چاندی
صحرا میں پائل چھنچھناتی ہے
مگر جب تم
کسی احساس کو تصویر کرتی ہو
کلر اسکیم میں
وہ رنگ رکھنا بھول جاتی ہو
کہ جس کے لمس سے
تصویر کے لب گنگناتے ہیں
مناظر، دیکھنے والوں سے پیہم بات کرتے ہیں
تمھاری گنگناہٹ میں
نسیمِ صبح کی خوشبو مہکتی ہے
مگر گاتے ہوئے تم عین موقع پر
کبھی سُر بھول جاتی ہو
کبھی لَے توڑ دیتی ہو
مجھے معلوم ہے ، وہ کون ہے
جو اکثر
تمھارے سامنے سے
رنگ لے کر بھاگ جاتا ہے
بھرے دربار میں
جو ساز لَے توڑ دیتا ہے
تمھاری بات کرتی
آنکھ کے لہجے میں بھی
جو دخل دیتا ہے
تمھاری روح کے شوکیس میں
رکھے ہوئے سارے کھلونوں پر
وہ جس کا نام لکھا ہے
تمھاری آنکھ
اس معصوم بچے کو
ابھی تک ڈھونڈتی ہے
وہ رشتہ۔۔۔۔۔ اور اس رشتے کی خوشبو
ابھی تک ہم رکابِ زندگی ہے
تمھاری ذات کے صحرا میں
جو یہ پیاس رقصاں ہے
مجھے ڈرے
کہیں یہ پیاس
جزوِ جاں نہ بن جائے
یہ رنج و غم۔۔۔۔۔ تمھاری ذات کا عنواں نہ بن جائے
سوا تشنہ لبی کو
آؤ اب ہم یوں بجھاتے ہیں
تمھارے سامنے رکھی ہوئی
یہ خوبصورت
دل نشیں راکھی
جو مدت سے
کسی آہٹ کی اب تک منتظر ہے
اسے تم اپنے ہاتھوں
باندھ لو
اپنی کلائی پر
علاجِ تشنگی کی
دوسری صورت نہیں کوئی
٭٭٭

No comments:

Popular Posts