چنگاریوں کا دھمال
چودھویں کے چاند کا بھی
کیا عجب انداز ہے
بحر پہ کچھ جھیل میں کچھ
آب جو پر اور کچھ
دامنِ صحرا پہ
اس کی خوش خرامی اور ہے
چاند کو دریا پہ دیکھا
خامشی سے ، سر جھکائے
دور تک جاتے ہوئے
نرم، نازک لہر کو
پازیب پہنا تے ہوئے
رقص کرتی موج پر
کرنوں کو برساتے ہوئے
سطحِ دریا پر بنے
رنگوں کے قصرِ ناز میں
آتے ہوئے
جاتے ہوئے
خواب آنکھوں میں سجائے
اور گھونگھٹ کاڑھ کے بیٹھی
عروسِ شب سے
کچھ کہتے ہوئے
سنتے ہوئے
چاند کس درجہ
سمندر آشنا ہے
اس سے بھی واقف ہوں میں
موج کارہ رہ کے
سوئے چرخ تکنا یاد ہے
اونچے سُر میں
چاندنی کا گنگنانا یاد ہے
رات کی شائستگی
موجوں کی وحشت یاد ہے
اضطرابِ بحر کا
ایک ایک منظر یاد ہے
جھیل کے آئینے میں بھی
میں نے دیکھا ہے اسے
اپنا چہرہ فخریہ انداز میں تکتے ہوئے
اک ادائے خاص سے
تا دیر اپنے عکس کو
جھیل کی گہرائیوں میں
سینت کر رکھتے ہوئے
ہاں مگر وہ رات
جو بستی ہے میری روح میں
اس کی شوخی
اس کے جلوے
اس کی رعنائی نہ پوچھ
ذرہ ذرہ نغمہ زن تھا
لمحہ لمحہ مشک بو
کیکروں کی شاخ پر بھی
موتیے کے پھول تھے
جل رہے تھے
دامنِ سبزہ پہ
گوہر کے چراغ
صورتِ گل
محفلِ انجم سجی تھی شاخ شاخ
ریت کے ٹیلوں پہ کوئی
جڑ گیا تھا کوہِ نور
ثبت ہے احساس میں
وہ حدتِ رنگِ جمال
نرم ٹھنڈی ریت پر
چنگاریوں کا وہ دھمال
دور تک پھیلی ہوئی
بارہ دری میں رات بھر
روشنی کی گفتگو تھی
زندگی کا ذکر تھا
ہر طرح تھی رقص میں
اک رنگ و نکہت کی فضا
یوں گماں ہوتا تھا
جیسے آسماں ہو زیرِ پا
شاہ وارث لکھ رہے تھے ہیر
میرے سامنے
اور فضا مخمور تھی
اس شاعری کے نور سے
بانسری کی دھن پہ
محوِ رقص تھی اس رات ہیر
سسّی نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں
تا حدِّ نظر
سوہنی کچے گھڑے سے
کر رہی تھی گفتگو
چاندنی کی بے حجابی
اور وہ رنگِ فضا
چوڑیاں شیشے کی
پیہم بج رہی تھیں چارسو
پھوس کے وہ چھوٹے چھوٹے گھر
وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں
رنگ میں ڈوبی ہوئی
وہ چاندنی آنچل کی چھاؤں
کہکشاں جیسے
زمیں پر آ گئی ہو گھومنے
روشنی جیسے جھکی ہو
آئینے کو چومنے
ان مناظر کی تمنا ہے
تو مانو ایک بات
تھَر کسی بستی
تھَر کے صحرا میں گزارو
ایک رات
٭٭٭
چودھویں کے چاند کا بھی
کیا عجب انداز ہے
بحر پہ کچھ جھیل میں کچھ
آب جو پر اور کچھ
دامنِ صحرا پہ
اس کی خوش خرامی اور ہے
چاند کو دریا پہ دیکھا
خامشی سے ، سر جھکائے
دور تک جاتے ہوئے
نرم، نازک لہر کو
پازیب پہنا تے ہوئے
رقص کرتی موج پر
کرنوں کو برساتے ہوئے
سطحِ دریا پر بنے
رنگوں کے قصرِ ناز میں
آتے ہوئے
جاتے ہوئے
خواب آنکھوں میں سجائے
اور گھونگھٹ کاڑھ کے بیٹھی
عروسِ شب سے
کچھ کہتے ہوئے
سنتے ہوئے
چاند کس درجہ
سمندر آشنا ہے
اس سے بھی واقف ہوں میں
موج کارہ رہ کے
سوئے چرخ تکنا یاد ہے
اونچے سُر میں
چاندنی کا گنگنانا یاد ہے
رات کی شائستگی
موجوں کی وحشت یاد ہے
اضطرابِ بحر کا
ایک ایک منظر یاد ہے
جھیل کے آئینے میں بھی
میں نے دیکھا ہے اسے
اپنا چہرہ فخریہ انداز میں تکتے ہوئے
اک ادائے خاص سے
تا دیر اپنے عکس کو
جھیل کی گہرائیوں میں
سینت کر رکھتے ہوئے
ہاں مگر وہ رات
جو بستی ہے میری روح میں
اس کی شوخی
اس کے جلوے
اس کی رعنائی نہ پوچھ
ذرہ ذرہ نغمہ زن تھا
لمحہ لمحہ مشک بو
کیکروں کی شاخ پر بھی
موتیے کے پھول تھے
جل رہے تھے
دامنِ سبزہ پہ
گوہر کے چراغ
صورتِ گل
محفلِ انجم سجی تھی شاخ شاخ
ریت کے ٹیلوں پہ کوئی
جڑ گیا تھا کوہِ نور
ثبت ہے احساس میں
وہ حدتِ رنگِ جمال
نرم ٹھنڈی ریت پر
چنگاریوں کا وہ دھمال
دور تک پھیلی ہوئی
بارہ دری میں رات بھر
روشنی کی گفتگو تھی
زندگی کا ذکر تھا
ہر طرح تھی رقص میں
اک رنگ و نکہت کی فضا
یوں گماں ہوتا تھا
جیسے آسماں ہو زیرِ پا
شاہ وارث لکھ رہے تھے ہیر
میرے سامنے
اور فضا مخمور تھی
اس شاعری کے نور سے
بانسری کی دھن پہ
محوِ رقص تھی اس رات ہیر
سسّی نے آنکھیں بچھا رکھی تھیں
تا حدِّ نظر
سوہنی کچے گھڑے سے
کر رہی تھی گفتگو
چاندنی کی بے حجابی
اور وہ رنگِ فضا
چوڑیاں شیشے کی
پیہم بج رہی تھیں چارسو
پھوس کے وہ چھوٹے چھوٹے گھر
وہ چھوٹے چھوٹے گاؤں
رنگ میں ڈوبی ہوئی
وہ چاندنی آنچل کی چھاؤں
کہکشاں جیسے
زمیں پر آ گئی ہو گھومنے
روشنی جیسے جھکی ہو
آئینے کو چومنے
ان مناظر کی تمنا ہے
تو مانو ایک بات
تھَر کسی بستی
تھَر کے صحرا میں گزارو
ایک رات
٭٭٭
No comments:
Post a Comment