اپنا انجام ہوا جاتا ہے
عشق ناکام ہوا جاتا ہے
عشق ناکام ہوا جاتا ہے
اِنحطاط آیا ہے اک اک شے پر
درد اب عام ہوا جاتا ہے
اپنا جینا بھی ہے سازش کوئی
دانہ و دام ہوا جاتا ہے
ایک ہی شخص ہے وہ کہنے کو
شہر بدنام ہوا جاتا ہے
آؤ نفرت کریں اک دوجے سے
پیار الزام ہوا جاتا ہے
سورج اُترا ہے مری آنکھوں میں
مطلعِ شام ہوا جاتا ہے
سعدؔ خاموش سا رہنا اس کا
اب تو پیغام ہوا جاتا ہے
٭٭٭
No comments:
Post a Comment