اپنی سوچوں کے تعاقب میں کہاں تک جاتے
روشنی بن کے نکلتے تو وہاں تک جاتے
ایسے لگتا ہے نشانے پہ ہے اپنی قسمت
ورنہ سب تیر مسلسل نہ کماں تک جاتے
ہم نے اچھا کیا لوٹ آئے وگرنہ ہم لوگ
فاصلے اور بڑھا آتے جہاں تک جاتے
تیری صورت پہ کھلا مطلعِ انوارِ فسوں
ہم بھٹک جاتے اگر وہم و گماں تک جاتے
گر ہمیں خوف نہ ہوتا تری رسوائی کا
عین ممکن تھا کہ ہم آہ و فغاں تک جاتے
سعدؔ اپنی تو طبیعت ہی انوکھی تھی بہت
ورنہ ہم لوگ نہ ایسے ہی زیاں تک جاتے
روشنی بن کے نکلتے تو وہاں تک جاتے
ایسے لگتا ہے نشانے پہ ہے اپنی قسمت
ورنہ سب تیر مسلسل نہ کماں تک جاتے
ہم نے اچھا کیا لوٹ آئے وگرنہ ہم لوگ
فاصلے اور بڑھا آتے جہاں تک جاتے
تیری صورت پہ کھلا مطلعِ انوارِ فسوں
ہم بھٹک جاتے اگر وہم و گماں تک جاتے
گر ہمیں خوف نہ ہوتا تری رسوائی کا
عین ممکن تھا کہ ہم آہ و فغاں تک جاتے
سعدؔ اپنی تو طبیعت ہی انوکھی تھی بہت
ورنہ ہم لوگ نہ ایسے ہی زیاں تک جاتے
No comments:
Post a Comment