بے صدا آہٹ
میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا
تھا کس میں حوصلہ اتنا کہ اپنے خواب کو چھُو لے
مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو
مناظر اور ہی کچھ تھے
نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں
نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ خوشبو میں رچی سانسیں
نہ شہد آگیں سے لب اُس کے
نہ اُن پر حرفِ گل کوئی
مکمل اک نیا چہرہ
مکمل اک نیا لہجہ
وہ اس کا یوں بدل جانا تو اس کی اک ضرورت تھی
کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی
وگرنہ اس میں کیا شک ہے، اُسے مجھ سے محبت تھی
٭٭٭
میں خود کو اس کے قابل کب سمجھتا تھا
تھا کس میں حوصلہ اتنا کہ اپنے خواب کو چھُو لے
مگر اک بے صدا آہٹ پہ جب یہ خواب ٹوٹا تو
مناظر اور ہی کچھ تھے
نہ وہ گلنار سا چہرہ، نہ وہ خوابیدہ سی آنکھیں
نہ سایہ دار وہ پلکیں، نہ خوشبو میں رچی سانسیں
نہ شہد آگیں سے لب اُس کے
نہ اُن پر حرفِ گل کوئی
مکمل اک نیا چہرہ
مکمل اک نیا لہجہ
وہ اس کا یوں بدل جانا تو اس کی اک ضرورت تھی
کھلا مجھ پر کہ اس کے پاس جینے کی فقط یہ ایک صورت تھی
وگرنہ اس میں کیا شک ہے، اُسے مجھ سے محبت تھی
٭٭٭
No comments:
Post a Comment