خود کو کھویا ہے تجھے اپنا بنانے کے لیے
راہ گم کردہ رہے، راہ پہ آنے کے لیے
اے مری شمعِ فروزاں یہ ادا کیسی ہے
تو نے سب شمعیں جلائی ہیں بجھانے کے لیے
رائیگاں ہوتے ہوئے اپنے شب و روز تو دیکھ
کچھ مہ و مہر بنا ان کو سجانے کے لیے
بعد پروانے کے یہ راز کھلا ہے کس پر
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے
ہر گھڑی عشوہ گری کرتی نشیلی آنکھیں
جن میں وعدہ ہی نہیں کوئی نبھانے کے لیے
خودسری زیبا ہے تجھ کو کہ بھری دنیا میں
ہم تو آئے ہیں ترے ناز اٹھانے کے لیے
خامشی اپنی کوئی عجز نہیں ہے ہرگز
کوئی سنتا ہو تو کیا کچھ ہے سنانے کے لیے
جان لے سعدؔ یہ آساں بھی نہیں ہے اتنا
ہمیں درکار ہے تُو غم کو بھلانے کے لیے
راہ گم کردہ رہے، راہ پہ آنے کے لیے
اے مری شمعِ فروزاں یہ ادا کیسی ہے
تو نے سب شمعیں جلائی ہیں بجھانے کے لیے
رائیگاں ہوتے ہوئے اپنے شب و روز تو دیکھ
کچھ مہ و مہر بنا ان کو سجانے کے لیے
بعد پروانے کے یہ راز کھلا ہے کس پر
شمع جلنے کے لیے ہے کہ جلانے کے لیے
ہر گھڑی عشوہ گری کرتی نشیلی آنکھیں
جن میں وعدہ ہی نہیں کوئی نبھانے کے لیے
خودسری زیبا ہے تجھ کو کہ بھری دنیا میں
ہم تو آئے ہیں ترے ناز اٹھانے کے لیے
خامشی اپنی کوئی عجز نہیں ہے ہرگز
کوئی سنتا ہو تو کیا کچھ ہے سنانے کے لیے
جان لے سعدؔ یہ آساں بھی نہیں ہے اتنا
ہمیں درکار ہے تُو غم کو بھلانے کے لیے
No comments:
Post a Comment