شامِ فراقِ یار نے ہم کو اداس کر دیا
بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا
خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر
ہم نے تو حرف حرف کو حرفِ سپاس کر دیا
کب تھے زمانہ ساز ہم، کب تھے کسی کا راز ہم
ہم کو ادائے شہر نے، شہر شناس کر دیا
اے کہ ہوائے تُندخُو! اور بڑھا دیے کی لو
غم نے تو آہِ سرد کو اپنی اساس کر دیا
اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس
جیسے ہمیں بھی یار نے پھولوں کی باس کر دیا
کیسی عجیب بات ہے اس کی نگاہِ ناز نے
ہم کو بدل کے رکھ دیا، عام سے خاص۱ کر دیا
کیا ہے طلسمِ حرف و صوت! اُس نے تو جنبشِ لب سے ہی
دل کو نہال کر دیا، زیست کو آس کر دیا
دیکھ لی حسن کے سامنے ہم نے بھی عشق کی بے بسی
وقت نے پیکرِ عشق پر غم کو لباس کر دیا
بخت نے اپنے عشق کو حسرت و یاس کر دیا
خوئے جفائے ناز پر اپنا سخن ہے منحصر
ہم نے تو حرف حرف کو حرفِ سپاس کر دیا
کب تھے زمانہ ساز ہم، کب تھے کسی کا راز ہم
ہم کو ادائے شہر نے، شہر شناس کر دیا
اے کہ ہوائے تُندخُو! اور بڑھا دیے کی لو
غم نے تو آہِ سرد کو اپنی اساس کر دیا
اپنی تو بات بات سے آتی ہے یوں مہک کہ بس
جیسے ہمیں بھی یار نے پھولوں کی باس کر دیا
کیسی عجیب بات ہے اس کی نگاہِ ناز نے
ہم کو بدل کے رکھ دیا، عام سے خاص۱ کر دیا
کیا ہے طلسمِ حرف و صوت! اُس نے تو جنبشِ لب سے ہی
دل کو نہال کر دیا، زیست کو آس کر دیا
دیکھ لی حسن کے سامنے ہم نے بھی عشق کی بے بسی
وقت نے پیکرِ عشق پر غم کو لباس کر دیا
No comments:
Post a Comment