ایک احساس مرے دامنِ ادراک میں ہے
وہی سینے میں ہے پنہاں کہ جو افلاک میں ہے
وہی سینے میں ہے پنہاں کہ جو افلاک میں ہے
ایک خوشبو سے معطر ہے مشامِ جاں بھی
ایک ٹھنڈک سی مرے دیدۂ نمناک میں ہے
محوِ پرواز ہوں میں سوئے فلک صدیوں سے
آسمانوں میں کشش ہے کہ مری خاک میں ہے
ڈرتا رہتا ہوں ہویدا ہی نہ ہو جائے کہیں
ایک بے تاب سا شعلہ خس و خاشاک میں ہے
دیدۂ خوش پہ اٹھائے ہوئے کچھ شبنمی خواب
بادِ خوشبوئے گلِ خاص مری تاک میں ہے
حسرت و یاس ہر اک گام گلو گیر سہی
مگر اک لطفِ اَنا فطرتِ چالاک میں ہے
ہے کہیں ناخنِ تدبیر پہ بھی ایک خلش
ایک الجھی سی گرہ رشتۂ پیچاک میں ہے
دیکھ اے سعدؔ کہیں راز نہ ہو جائے عیاں
ان دنوں تیرا جنوں عرصۂ بے باک میں ہے
No comments:
Post a Comment