کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر
روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر
مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی
میں تو اک دشت ہوں، آ جاؤں اگر پینے پر
بامِ شہرت پہ مجھے دیکھ کے حیران نہ ہو
پاؤں رکھا ہی نہیں میں نے ابھی زینے پر
آسماں کا ہی رہا میں، نہ زمیں کا ہی رہا
ذوقِ پرواز نے اس طرح مرے چھینے پر
وہ مرا نام جو لیتا ہے تو یوں لگتا ہے
جیسے گل کاڑھ رہا ہو کوئی پشمینے پر
جو بھی دل میں ہے کسی کے وہ رہے ویسے ہی
میں نہ بنیاد اٹھاؤں گا کبھی کینے پر
وہ مرے سامنے ہے اور ہے روشن سب کچھ
نظر اس کی بھی ٹھہرتی نہیں آئینے پر
سعدؔ یہ کارِ سخن، کس کو بتاؤں کیا ہے
ایک مزدور کی صورت ہوں میں روزینے پر
روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر
مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی
میں تو اک دشت ہوں، آ جاؤں اگر پینے پر
بامِ شہرت پہ مجھے دیکھ کے حیران نہ ہو
پاؤں رکھا ہی نہیں میں نے ابھی زینے پر
آسماں کا ہی رہا میں، نہ زمیں کا ہی رہا
ذوقِ پرواز نے اس طرح مرے چھینے پر
وہ مرا نام جو لیتا ہے تو یوں لگتا ہے
جیسے گل کاڑھ رہا ہو کوئی پشمینے پر
جو بھی دل میں ہے کسی کے وہ رہے ویسے ہی
میں نہ بنیاد اٹھاؤں گا کبھی کینے پر
وہ مرے سامنے ہے اور ہے روشن سب کچھ
نظر اس کی بھی ٹھہرتی نہیں آئینے پر
سعدؔ یہ کارِ سخن، کس کو بتاؤں کیا ہے
ایک مزدور کی صورت ہوں میں روزینے پر
No comments:
Post a Comment