Wednesday, July 17, 2013

Kab kaha hai k mujhe fakher hai iss jeene par

کب کہا ہے کہ مجھے فخر ہے اس جینے پر
روز اک داغ چمکتا ہے مرے سینے پر

مجھ سے اشکوں کی نہیں بات کرو دریا کی
میں تو اک دشت ہوں، آ جاؤں اگر پینے پر

بامِ شہرت پہ مجھے دیکھ کے حیران نہ ہو
پاؤں رکھا ہی نہیں میں نے ابھی زینے پر

آسماں کا ہی رہا میں، نہ زمیں کا ہی رہا
ذوقِ پرواز نے اس طرح مرے چھینے پر

وہ مرا نام جو لیتا ہے تو یوں لگتا ہے
جیسے گل کاڑھ رہا ہو کوئی پشمینے پر

جو بھی دل میں ہے کسی کے وہ رہے ویسے ہی
میں نہ بنیاد اٹھاؤں گا کبھی کینے پر

وہ مرے سامنے ہے اور ہے روشن سب کچھ
نظر اس کی بھی ٹھہرتی نہیں آئینے پر

سعدؔ یہ کارِ سخن، کس کو بتاؤں کیا ہے
ایک مزدور کی صورت ہوں میں روزینے پر

No comments:

Popular Posts