ہمارے در سے شبِ ماہ سوگوار گئی
اور اپنی آنکھ سے ویرانیاں گزار گئی
وہ ایک ساعتِ حیراں کہ پتلیوں پر ہے
وہ اک نظر کہ جو سینے کے آر پار گئی
میں اپنے آپ سے ناراض ہوں یقیں جانو
کہ اس کے سامنے جیسے اَنا بھی ہار گئی
جسے میں دستِ تخیل پہ لے کے اڑتا تھا
وہ خاکِ رہ مجھے پاتال میں اتار گئی
کسی بھی وہم کو دل میں جگہ نہ دینا دوست
خزاں جو ذہن میں آئی تو پھر بہار گئی
اب اس قدر بھی گیا گزرا میں نہیں ہوں سعد ؔ
مجھے تو جیسے محبت کسی کی مار گئی
اور اپنی آنکھ سے ویرانیاں گزار گئی
وہ ایک ساعتِ حیراں کہ پتلیوں پر ہے
وہ اک نظر کہ جو سینے کے آر پار گئی
میں اپنے آپ سے ناراض ہوں یقیں جانو
کہ اس کے سامنے جیسے اَنا بھی ہار گئی
جسے میں دستِ تخیل پہ لے کے اڑتا تھا
وہ خاکِ رہ مجھے پاتال میں اتار گئی
کسی بھی وہم کو دل میں جگہ نہ دینا دوست
خزاں جو ذہن میں آئی تو پھر بہار گئی
اب اس قدر بھی گیا گزرا میں نہیں ہوں سعد ؔ
مجھے تو جیسے محبت کسی کی مار گئی
No comments:
Post a Comment